ابابیل اور شہزادہ

Posted on at


ابابیل اور شہزادہ

کسی ملک میں مدین نام کا ایک بلند، ہمت، اعلیٰ حوصلہ اور صاحب تدبیر بادشاہ تھا۔ اس کو ایک ابابیل سے بڑا پیار تھا۔ یہ خوبصورت پرندہ اپنی دلکش صورت اور پیاری بولی سے بادشاہ کا دل لبھاتا تھا۔ وہ اسے ہر وقت اپنے پاس رکھتا اور اس کی میٹھی بولی سنتا رہتا۔ اتفاق سے ابابیل نے بادشاہ کے کمرے میں انڈا دیا اور کچھ عرصے کے بعد اس سے بچہ نکل آیا۔ بادشاہ نے اپنی حد درجہ دلچسپی کے تحت اس کو حرم سرا میں لے جانے کا حکم دیا اور حرم سرا کے تمام ملازمین کو حکم دیا کہ دونوں کا بہت زیادہ خیال رکھا  جائے۔
عجب اتفاق ہے اسی روز بادشاہ کے ہاں بھی شزادے کی ولادت ہوئی ،چنانچہ شہزادے اور ابابیل کے بچے، دنوں کی ایک ساتھ پرورش ہونے لگی۔ شزادہ ابابیل کے بچے سے کھیلتا تھا اور دنوں ایک دوسرے سے حد درجہ مانوس ہو گئے تھے۔ ابابیل کا معمول تھا کہ روزانہ کو ہسار اور جنگل کی طرف نکل جاتی اور قسم قسم کے پھل اور میوے، جنہیں انسان جانتے بھی نہ تھے لے آتی جو تعداد میں دو ہوتے تھے۔ ایک ان میں سے شہزادے کو دیتی اور دوسرا اپنے بچے کو۔ دونوں بچے خوب مزے لے لے کر کھاتے اور خوش ہوتے۔ ان پھلوں سے بچوں کی جسمانی نشونما کو بہت فائدہ ہوا۔ بادشاہ خوش ہو کر ابابیل اور اس کے بچے کا زیادہ خیال رکھنے لگا۔وقت اسی طرح گزرتا رہا۔
ایک دن ابابیل کہیں باہر گئی ہوئی تھی اور اس کا بچہ شہزادے کی گود میں اچھل کود  رہا تھا کہ اچانک اس کے پنجے سے شہزادے کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ شہزادے ابابیل کے بچے کو گھما کر زمین پر پٹک دیا اور وہ پھڑ پھڑا کر مر گیا۔ ابابیل جب واپس آئی اور اس نے اپنے بچے کو مردا پایا تو شدت غم سے اس کا کلیجا پھٹ گیا۔ دنیا اندھیر ہو گئی اور اس نے گریہ وزاری سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ روتی جاتی ہو کہتی جاتی کہ میری عقل پر پتھر  پڑ گئے تھے کہ  میں نے شاہی حرم کو اپنا ٹھکانا بنایا، کتنا اچھا ہوتا کہ میں جنگل کی کسی جھاڑی میں یا کسی دیوار پر اپنا آشیانہ لگاتی۔ چند دن قناعت  کرتی تو یہ منحوس گھڑی نہ دیکھنی پڑتی۔کمزور کا طاقتور اور بڑے لوگوں کے ساتھ رہنے کا یہ ہی خشر ہوتا ہے۔ بہر حال میں اس کا انتقام لے کر رہو گی۔ اور اس بےرحم ظالم کو جس نے اپنے ساتھ کھیلنے والے دوست کو بےقصور مار ڈالا ہے، جب تک اس ظلم و خونخواری کا مزہ نہ چکھاوں گی،  میرے دل کو قرار نہ آئے گا۔ پس یکا یک اس نے جست لگائی، اور اپنے پنجوں سے شہزادے کی آنکھیں نکال لیں۔ اور اڑ کر محل کے کنگرے پر بیٹھ گئی۔بادشاہ کو جب اس بات کی خبر ملی تو وہ صخت پیچ و تاب کھانے لگا اور دل میں سوچا کہ کس طرح اس بدمعاش ابابیل کو دام فریب میں پھنسایا جائے اور پھر اسے ازیت ناک سزا دی جائے۔


About the author

Khanbaba

Abdulbasit is the blogger and seo expert and made several blogs on Blogger Platform,and worked for several other bloggers. Eg: ehowbloggers etc. And now he is working on filmannex.. Abdulbasit is also ethical hacker and pen-tester. He has also done a job for different groups named as LOLSec 2,Pakistan cyber…

Subscribe 0
160