آزادی مارچ اور بیوقوف نون لیگی کارکن

Posted on at


عمران خان کی قیادت میں ١٤ اگست کو دن ١ بجے کے قریب آزادی مارچ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا. تقریباً ٣٠ گھنٹے کی مسافت کے بعد صبح سات بجے کے قریب آزادی مارچ گوجرانوالہ پہنچ گیا.گجرانوالہ میں شاندار استقبال کیا گیا. یہاں عمران خان نے کارکنوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ایک جاندار سی تقریر کی اور پھر سب ناشتہ کرنے چلے گے. خان (یعنی عمران خان) کے لئے گجرانوالہ میں ناشتے کا انتظام کیا گیا تھا. آزادی مارچ کے شرکاء نے بھی ناشتہ کیا. اور پھر کاروان اپنی منزل کی طرف دوبارہ گامزن ہو گیا.
اس وقت تک آزادی مارچ کی طرف سے کسی ایک شخص کو بھی کوئی تکلیف نہیں ملی. ایک پتا بھی نہیں ہلا. یہ سب آزادی مارچ کے پہ امن ہونے کی نشانی ہے. تھوڑا آگے آزادی مارچ گزر رہا تھا تو سڑکوں کے دونوں طرف بہت سے لوگ جمع تھے جنہوں نے شیر کے نشان اور پی ایم ایل این کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے. . جب مارچ ان کے پاس سے گزارنے لگا تو دونو اطراف سے اپنے اپنے لیڈروں کے حق اور دوسروں کے لیڈروں کے خلاف شدید نعرے بازی ہوئی.


اسی اثناء میں نون لیگ کے کارکنوں نے آزادی مارچ کے شرکاء پر پتھراو شروع کر دیا. جس سے تحریک کے کارکن زخمی بھی ہوے اور ان کی گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گے. عمران خان کے پنا فلیکس پھاڑے گے اور عمران خان کو جوتے دکھائے گے. عمران خان کے کنٹینر پر بھی پتھراو کیا گیا . کنٹینر کا وو حصّہ جس کو خان کمرے کے طور پر استمال کرتے ہیں اسکی کھڑکی پر ایک پتھر لگا اور شیشہ ٹوٹ گیا. کنٹینر کی چھت پر جہاں خان کھڑے ہوتے ہیں وہاں بھی پتھر پھینکے گے. ایسا چار مختلف جگہوں پر ہوا.
اگر اس وقت وقت خان چھت پر موجود ہوتے اور انھیں پتھر لگ جاتا تو پھر؟ یہ تو حکومت شکر کرے کہ خان کو کچھ ہوا نہیں اور اس کے علاوہ حکومت کو خان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے اپنے کارکنوں کو صبر کی تلقین کی ورنہ لانگ مارچ اسلام آباد آنے کے بجائے خونی مارچ بن جاتا.


جیسے نون لیگ کے کارکن شریف برادران سے محبّت کراتے ہیں تحریک انصاف کے کارکن عمران سے اس سے کہیں زیادہ محبّت کرتے ہیں. اور کتنے جاہل ہیں نون لیگی کہ ان میں اتنا عقل بھی نہیں کہ وو کسی دوسرے کا احترام کر سکیں. ان کی جہالت کا یہ ثبوت ہی کافی ہے کہ وہ ایک عوامی لیڈر جس کے پیچھے پاکستانی تعلیم یافتہ یوتھ چلتی ہے اس کو جوتے دکھا رہے ہیں. ارے لعنت ہے تم پر جو تم کسی کا احترام نہ کر سکو. ارے تم لوگ اپنے لیڈر سے کیا خاک محبّت کرتے ہو گے جو دوسروں کی اپنے لیڈر سے محبّت کا احساس نہ کر سکو.

اگر اس وقت عمران خان کو کچھ ہو جاتا یا ایک خراش بھی آتی اور تحریک کے دوسرے لیڈر اس چیز کو لے کر عوام کو مشتعل کرتے تو پورے پاکستان میں نون لیگ اور تحریک کے کارکنوں کے درمیان فسادات شروع ہو جاتے. کیوں کہ جتنے عمران سے محبت کرنے والے عمران کے ساتھ مارچ میں شریک ہیں اس سے کہیں زیادہ محبت کرنے والے ان کا ساتھ اس وقت موجود نہیں ہیں. ایسی صورت حال میں وو لوگ بھی نکل آتے. اور پھر حکومت کے لئے ان کو روکنا بہت مشکل ہو جاتی. اور مارشل لاء کے ساۓ بھی منڈلانے لگتے.


گوجرانوالہ نون لیگ کا گڑھ ہے. حکومت کو چاہیے تھا کہ یہاں سیکورٹی کہ زیادہ سخت انتظامات کیے جاتے. اس کے علاوہ یہاں کی تاریخ بھی زیادہ سیکورٹی کا تقاضا کرتی ہے. ١٩٧٧ میں جب ذولفقار علی بھٹو نے لانگ مارچ کیا تھا تب بھی گوجرانوالہ میں اسی قسم کے واقعات دیکھنے میں اے تھے. جب ذولفقار علی بھٹو پر جوتے پھینکے گئے تو انھوں نے کہا کہ لگتا ہے یہاں جوتے بہت سستے ہیں.
اب حکومت کی ذمےداری بنتی ہے کہ اس واقعے کے ذمےدار افراد کو سزا دی جاۓ تا کہ آئندہ اسے ناخوشگوار واقعات سے بچا جا سکے.

 



About the author

Sahar_Fatima

I am Sahar Fatima. And I am interested in bloging.

Subscribe 0
160