روایتوں کی پیروی

Posted on at


روایتوں کی پیروی


جان ملٹن جو ایک انگریزی شاعر اور ادیب تھا ، نے طاقت کے توازن کو دونوں فریقین میں برابر کی تقسیم کا فلسفہ بیان کیا، ایک شخص اینٹ مارتا ہے تو دوسرا اس کا جواب پتھر سے دے گا۔ دنیا میں جہاں عقل مندوں کی سمجھداری اور سوچ کا معیار یکساں ہے ادھر کم عقل بھی تقریباً ایک ہی طرح کے سوچ کے مالک ہیں۔  ہرذی بشر کی دنیا خواہشات کے دائروں پر موقوف ہیں ہر شخص کی تمنا ہے کہ اُسے بنا بنایا نوالہ مل جائے صرف اُسے کھانے کی زحمت کرنی پڑے۔



ماضی بعید اور ماضی قریب کی دنیا کی تاریخیں اچھے برے حکمرانوں کی طرز حکمرانی سے بھری پڑی ہیں، جن حکمرانوں نے اصل طاقت کا سرچشمہ عوام کو جانا وہ قومیں صدیاں بیتنے کے باوجود زندہ و جاوید ہیں اور جن حکمرانوں کی حکمرانی انا پرستی کے دائروں میں گھومتی رہیں انھوں نے اپنی تاریخیں شکشت خودہ قوموں کے سیاہ اوراق میں لکھوائی، زیادہ دور نہیں صرف چند صدیاں پیچھے جائے مغل بادشاہ شاہ جہاں تاج محل کی بنیادیں رکھ رہا تھا تو دوسری طرف اسی زمانہ میںآکسفوڈ یونیورسٹی  کی بنیادیں رکھی جارہی  تھی ، جہاں سے فارغ التحصیل طلباء نے ایسی سلطنت کی بنیاد ڈالی جہاں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس طرف مغل بادشاہ صرف اپنی بیوی ممتاز محل کی محبت  کی یاد گار بنا رہا تھا جس سے عوام مفادات ، عوامی ترقی و خوشحالی کا قطعاً کوئی تعلق نہیں تھا ، سوچنے کی بات ہے اگر برصغیر کے ان حکمرانوں کو ملک کی اصل طاقت کا راز عوام کی خوشحالی اور قوم کی فن حرب کی پیشہ وارنہ مہارت کی تعلیم میں نظر آ جاتی تو نہ برصغیر کے باسیوں کو فرنگیوں کی غلامی ملتی اور نہ ہی موجودہ دور میں جنوبی ایشیا کے ملکوں کا وجود، نہ فرقہ واریت ، نہ لسانیت اور نہ قومیت اور آج برصغیر کی شکل دنیا کے نقشے پر الگ طرح سے ہوتی۔



برصغیر کی تقسیم دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہوئی جو ہندو اکثریتی آبادی کی تنگ نظری اور فرنگیوں کے امتیازی سلوک کی وجہ سے بنی۔  پاکستان بنے کے بعد آزادی جیسی نعمت کے ثمرات سے اس ملک کے عوام کو محروم رکھا گیا۔ پاکستان کے حکمران کی آنکھوں پر ابھی تک انا پرستی کی پٹی باندھی ہوئی ہے جو صدیوں پہلے مغل بادشاؤں کی آنکھوں پر تھی ان کی عدم بصریت اور کم فہمی کی وجہ سے ابھی تک ماضی کی مثالوں کی روایت قائم ہے۔  ہمارے موجودہ حکومت وقت کی دانش کی کیا داد دیں عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں پرامن جلسوں پر پتھروں کی بارش کی جارہی ہے اور  بھوک و پیاس سے نڈھال غریب ملک کے باسی دنیا کے مہنگے   شہر میں اپنے حقوق کی خاطر اکٹھے ہو رہے ہیں جہاں پر ریڑھی بان سے لیکر بڑے ریستوران تک خوردونوش کی اشیاء کے دام صارف سے دگنے وصول کیئے جارہے ہیں۔  جہاں پر مخیر افراد کی طرف سے بھوکی پیاسی تھکن سے چُور عوام کے لئے طعام کا بندوبست کرنے والوں کی بھی پکڑ دھکڑ کی جارہی ہے اور بے گناؤں پر گولیاں چلانے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ ایسی مثالیں تو غزہ میں اسرائیلی بربریت کی بھی نہیں ملتیں نہ ہی فرعون کے دور میں اور نہ یزیدی دور میں۔ حکمران اس دانش سے عاری ہیں اور سابقہ غلطیاں دہرانےکی روش پر قائم ہیں جو صدیوں پہلے ہمارے اسلاف نے کی تھیں جو وجہ غلامی بنی ابھی تک حقیقی آزادی کی جدوجہد میں دست و پا نظر آتے ہیں۔  حکمرانوں کو یہ ضرور سمجھنا ہو گا کہ اصل طاقت عوام ہیں اس ملک کا وجود اور مضبوط جغرافیائی حصار ، باشعور، دانا، تعلیم یافتہ ، صحت مند، محب وطن عوام ہیں عوام کی خوشحالی اور حقیقی خوشیاں ، عوام کے حصول حقوق پر منحصر ہیں، سستا فوری انصاف، تعلیم و طب کی سہولیات، امن و عامہ کا قیام، بنیادی ضرویات زندگی کی اشیاء کی عام آدمی تک رسائی ریاستی زمہ داریوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ، یہ حقیقت حکومت وقت کو ازبر کر لینی چاہیے کہ کفر کی حکومت جبر کی حکومت سے بہتر ہوتی ہے اور دعائیں اور بددعائیں دنیا سے جانے کے بعد بھی تعاقب کرتی ہیں۔


******************************


 



160