دماس ویو پوئنٹ

Posted on at


دماس ویو پوئنٹ


گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی میں اگلی نششت پر تھا گاڑی کو میرا بھانجی ڈرائیو کر رہا تھا گپ شپ کے ساتھ قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔میرا بھانجہ میری فوٹو گرافی پر بھی تبصرہ کر رہا تھا۔اتنے میں   ویو پوئنٹ بھی قریب آرہا تھا میں نے بھانجے سے گاڑی آہیست اور ویو پوئنٹ پر روکنے کے لئے کہا ۔عین ویو پوئنٹ پر گاڑی کو رکوا کر  ہم گاڑی سے اترے بچے بھی ہمارے ساتھ تھے ۔ہم ویو پوئنٹ کی طرف بڑھے ۔میں ویو پوئنٹ کی سڑھیاں چڑھ رہا تھا اور دل  میرا بوجھل ہوتا جا رہا تھا  اور میں قدرت کے نظاروں میں کھو جانے کے بجائے کہیں اور کھو گیا۔کھو کہاں گیا بلکہ  گم ہو گیا اور سوچ رہا تھا کہ ہم بحثیت قوم  کے فرد اپنی ذمہداریوں سے کتنی غفلت برت رہے ہیں  اور ایسی حرکتوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں  جن حرکتوں کو روکنا ہمارے اختیار میں ہے لیکن  اپنی بے حسی اور اس حرکت کو چھوٹی سمجھ کر نظر انداز کر جاتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ لباس شخصیت کا آئینہدار ہوتا ہے  اور لباس ہی کی وجہ سے انسان کی ظاہری وقار اور شان میں اضافہ ہوتا ہے لیکن جب  ہم اپنے ارد گرد اور پبلک مقامات  میں اپنے کرتوتوں پر نظر  دوڑاتے ہیں تو تو ہماری ذمہداری ظاہری وقار اور شان کی اندرونی کہانی  ہمارے سامنے آجاتی ہے یعنی مردہ بے ایمان قبر چونہ کش۔۔داماس ویو پوئنٹ ضلع غذر کے ہیڈ کوارٹر گاہکوچ سے تقریباًدس کلومیٹر کے فاصلے پر بطرف پھنڈر واقع ہے ۔اس ویوں پوئنٹ پر جب آپ پہنچ جاتے ہیں تو  بالکل اس کے سامنے  دریا کے دوسری طرف ہاتون گائوں آباد ہے  یہاں س گاہکوچ اور اس کے اطراف میں واقع  گائوں دیکھے جا سکتے ہیں  اور ویو پوئنٹ کے نیچے سے  دریا اپنی پوری آب تاب سے   ایک عجیب لطف مہیا کرتا ہے ۔ مگر اس ویو پوئنٹ کی بھی وہی درگت تھی جو اکثر پبلک مقامات کی ہوتی ہے  میرے  نواسے اور بھانجے  ویو پوئنٹ پر کھڑے دریا اور پہاڑوں  اور دور دور تک پھیلی وادی  کے نظاروں سے  لطف اندوز  ہو رہے تھے  اور میں  اس ویو پوئنٹ پر لکھی ہوئی تحریروں کو پڑھ رہا تھا کوئی جگہ  ایسی نہیں تھی  جہاں کچھ نہ لکھا ہو۔اتنے میں میرے بھانجے کی آواز آئی  ماموں آپ  کیا پڑھ رہے ہیں یہاں اوپر آجائیں  بڑا ہی  زبردست نظارہ ہے  اور فوٹوگرافی  کے لئے  بہتر جگہ ہے۔میں نے اسے کہا بھانجے  ٹھیریں  پہلے میں  پاکستانی قوم  کے کلچر  کو کیمرے کی آنکھ میں بند کر لوں  ۔پاکستان میں  آج ہماری سوچ صرف  میں تک محدود  رہ گئی ہے  ۔پبلک پراپرٹی  کا خیال رکھنا  سوسائٹی  اور سسٹم کو سپورٹ کرنا ہماری  سوچ کی ڈکشنری  کا حصہ نہیں ہیں۔اور سرکاری  پرپرٹی اور جھیلیں ،دریا،سمندر یہاں تک کہ جنگلات  اور سرکاری املاک کو  اس بے دردی  سے استعمال کرتے ہیں جیسے  اس ملک  سے اس کے وجود  میں آنے کا بدلہ اتار رہے ہوں  جس کو جتنا موقع مل رہا ہے  اس ملک پہ ہاتھ صاف کر رہا ہے۔پانی اور بجلی  کی چوری سے لیکر فرائض سے غفلت تک جس کے اختیار میں جو کچھ ہے اس سے اپنا حصہ وصول کرنے میں مصروف ہے ۔ گلگتبلتستان  میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں یہ علاقے بھی  اس لحاظ سے  کسی سے کم پیچھے نہیں  یہاں تو  سب کے وارے نیارے ہیں  کوئی پوچھنے والا  ہے ہی نہیں۔جی بی پی ڈبلیو ڈی  سے لے کر تعلیم جیسے  مقدس پیشے تک لوٹ مار کی سیل لگی ہوئی ہے عام آدمی ،پولیس والا،بیروکریٹ،سیاست دان کسی نہ کسی طرح قوم  کو لوٹ رہا ہے  پبلک پراپرٹی  کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔جس کا جی چاہتا ہے سڑک پر کچرا پھینک دیتا ہے ۔یہ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہم لوگ  سڑک پر  حادثہ ہو جاتا ہے تو یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ یہ سڑک تیری باپ کی ہے ۔لیکن  اس باپ کی سڑک پر کچرا اور گندگی  پھینکتے ہوئے یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ۔دماس ویو پوئنٹ  کی حالت زار دیکھ کر   احسا ہوا کہ حکومت کی ذمہ داری اپنی جگہ  مگر  عوامی جگہوں پر صفائی ستھرائی کے معمالے میں پبلک  پر کئی گنا زیادہ ڈمہ داری عائد ہوتی ہے  کیونکہ  حکومت آپ کو ایک چیز بنا کر تو دے سکتی ہے  لیکن  وہ لوگوں  کو اس چیز کے استعمال  کے بعد صاف رکھنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔


 



About the author

160