اختیارات کا ناجائز استعمال، غفلت اور گناہ

Posted on at


اختیارات کا ناجائز استعمال، غفلت اور گناہ


 مملکت خداداد پاکستان کا نظام حکومت ہمیشہ سے غیر مستقل پن کا شکار رہا ہے  زیادہ تر مطلق العنانی طرز حکومت رائج رہی ہے فرد واحد یا آمر اور اس کے چند مشاروتی وزراء نے یہ فرض منصبی ادا کئے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے جب بھی کسی عہدادار یا سیاسی کماش کو اعلیٰ حکومتی اختیارات سونپے گئے اس کا استعمال ناقص حکمت عملی سے کیا گیا اور طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ساتھ ساتھ المیہ یہ ہوا جو بھی فیصلے اس مملکت کے لئے صادر کئے گئے ان کا انجام نہایت گھناؤنا نکلا۔ ان تمام تر قومی فیصلوں میں ایک فیصد بھی  فیصلہ عوامی رائے اور عوامی امنگ و مشاورت پر مبنی نہیں تھا۔  اس کی چیدہ چیدہ مثالیں گوش گزار کی جاتی ہیں۔ سقوط ڈھاکہ یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے جب افواج پاکستان کو صورت حال کو سنبھالنے کے لئے  مشرقی پاکستان ڈپلاے کیا گیا تو اس قومی انتشار زدہ صورت حال سے ننانوے فیصد مغربی پاکستانی عوام بے خبر تھی جب پانی سر سے گزر گیا  ، تو سوئی ہوئی پاکستانی عوام آنکھیں ملتی رہ گئی قوم کے ساتھ کیا المیہ ہو گیا ہے اور پاکستان کا دانشور طبقہ اور مبصرین آج تک  اس سانحے کو دکھ و سوز سے بیان کرتا ہے یقینی طور اس سارے المیے میں پاکستانی عوام کو موردالزام ٹھیرانا غیر شعوری فعل ہوگا کیونکہ سامراجی طاقتوں کی کٹھ پتلی حکمرانوں کا اس میں کلیدی کردار رہا ہے جن کا عوامی نقصان سے کوئی غرض نہیں تھا۔ جنہوں نے پاکستان کی کشتی کو معاشی اور معاشرتی طور پر ڈبو دیا ان گنت قمیتی جانوں کا زیاں الگ ہوا۔



جب ملک میں 1977 میں جنرل ضیاء الحق نے عوامی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک پر ایسے انفرادی فیصلوں ٹھوسے گے جن کا عوامی مشاروت و رائے سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا ۔ ایک سرسری تناسب باآسانی لگایا جاسکتا ہے ایک حکمران اور چند ایک جرنیل، اور اس وقت کے بارہ کروڑ عوام۔  جو تناسب سے ایک فیصد کا بھی آخری عدد بنتا ہے۔  بلاشبہ آج تک قوم ان غلط فیصلوں کے نتائج بھگت رہی ہے اور قومی نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور تلافی ناممکن ہے۔



یہ تو چند ایک مثالیں ہیں جن کی وجہ سے اس ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔


وطن عزیز کو ابھی تک مسلسل ایسے نقصانات کا سامنا ہے اور ناعاقبت اندیش لوگ ابھی تک  ملک کی انتظامی صورت حال کو سنبھالنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔  آج کی ایک خبر سے جس میں موجودہ آزادی مارچ اور انقلابی مارچ سے  ملک کو چار کھرب روپے کا نقصان ہوا۔  لیکن یہ نقصان تو ملک کو ٹیکسوں کی مد میں ہوا ہے اس نقصان کا ذکر جس میں لاکھوں لوگ اپنا کام کاج چھوڑ کر اسلام آباد میں اکٹھے ہوئے ہیں آج ان لوگوں کا تیسرا روز ہے ، لیکن اس ضمن میں قانون کی گرفت قائم رکھنے کے لئے اسلام آباد کے تمام تعلیمی اداریں اور انتظامی دفاتر بھی تو بند ہیں اس نقصان  کا کیا ازالہ ۔ کیا ملک مذید ایسے نقصانات کا متحمل ہو سکتا ہے۔



اس سارے کرتے دھرتے میں قصور وار کون ہیں، کیا لیکشن کمیشن ہے یا پھر عدلیہ،  دھاندلی کے بعد جب عدلتوں سے قانونی چارہ جوئی کی درخواست کی گئی تو ان کی مجرمانہ خاموشی اور درج شدہ مقدموں کو حکومتی آشیربار کی وجہ سے عدم دلچسپی کا شکار کیا گیا، سابقہ عدالت عظمیٰ کا چیف تو سو موٹو کا اختیار لے لیا کرتے تھے۔  اس دفعہ عدالتوں نے ایسے مسائل کو سلجھانے میں غفلت کا مظاہرہ کیوں کیا۔ کیا منصف حضرات کی ان بن حکمرانوں سے پہلےسے طے شدہ تھی جو کچھ بھی ہو ملک کو ابھی تک صرف ٹیکس کی مد میں چار کھرب کا نقصان ہو چکا ہے۔  نظر یہی آ رہا ہے کہ ہمارا سارا اوپر کا طبقہ سمراجی قوتوں کا الہ کار ہے جو چند ٹکوں کے لئے ملک کو اربوں کھربوں کے نقصان کے ساتھ انسانوں کی جانوں سے بھی کھیل سکتا ہے ، ہمارے کلیدی اداروں کا کردار نہایت بھیانک ہے ، لیکن اس ملک کی بقا کے پیچھے پس پردہ کردار بھی موجود ہیں۔ اس ملک کی تاریخ گواہ ہے جس جس نے بھی وطن عزیز کو خون کے آنسو رولایا قدرت نے بھی ان سے بہت برا بدلہ لیا۔ عدلتوں کے منصف اور وقت کے حکمران ماضی کے حکرانوں کے عبرت ناک انجام دیکھ کر سبق سیکھے اور عوامی امنگوں، خواہشات کا احترام کریں۔



جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائے ملک کے وسائل کی مساوی تقسیم  کی جائے ملک کے صرف چند مرکزی شہر پاکستان نہیں ہے  بلکہ سارے ملک کے شہر گاؤں اور قصبے ہیں جو توجہ کے طلب گار ہیں۔ کلیدی اداریں عدلیہ ، احتساب بیورو اور الیکشن کمیشن کو فوج کے سپرد کر دیا جائے اور ان اداروں کے فرائض منصبی ادا کرنے  افسران کی بدعونیت ثابت ہونے پر ان کا کڑا احتساب کیا جائے ، ایسے حکمران اور اعلیٰ عہدے دار جو موجودہ سیاسی حالات کے بگاڑ کا سبب بنے اُن سے باز پشت کرکے عہدوں سے برطرف کیا جائے خصوصاً عدلیہ کا کردار ، جس نے چودہ ماہ سے انتخابی دھاندلی کے مقدمے کو جان بوجھ کر فائلوں کے اندر دبائے رکھا ،  اگر اس مقدمے  پر انصاف کے تقاضے پورے کئے جاتے تو آج اسلام آباد میں آج  کسی سیاسی اور دینی جماعت کا جم غفیر  نہ ہوتا  اگر خدانخواستہ ایسا کوئی دلخراش قومی سانحہ وقوع پذیر ہو گیا تو اس کی ذمہ داری کون قبول کرے گا۔


 امداد، بھیک، قرضوں کے کشکولوں کو توڑ کر ملک کو خودانحصاری کی شاہراہ  پر لانے کے لئے عوامی مشاورت اور رائے کا احترام ناگیز ہے


* * *


 



160