اخلاقیات اور ذات کا احاطہ

Posted on at


اخلاقیات اور ذات کا احاطہ


بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بیشتر مکتہ فکر اخلاقی موضوعات کی نہ ہی ترغیب کرتے ہیں نہ ہی تلقین کرتے ہیں، چاہئے کالم نگار ہو، دانشور، سکول کالج کے اساتذہ  ہوں یا مساجد کے خطیب۔  اسلامی معاشرے میں مسجد عبادات کے علاوہ ایک بڑا رفاحی اور علمی ادارہ بھی ہے جہاں معاشرے کا ہر فرد نماز کی ادائیگی کے لئے جاتا ہے  کیونکہ نماز دین اسلام میں ایک اہم فریضہ ہے جسے ہر صورت ادا کرنا ہے اور جمعہ کا دن بڑی اہیمت کا حامل ہوتا ہے نماز جمعہ سے پہلے خطیب  واعظ و ںصیحت اور معاشرتی مسائل کا ذکر کرتا   ، لیکن یہ مشاہدہ عام ہو گیا ہے  اکثر خطیب اخلاقی موضوعات سے ہٹ کر سیاسی موضوعات اپنا لے لیتے ہیں۔ حقیقت میں مسجد ایسے ادارے کا نام جہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تعلیم کا لوگوں کو بتانا چاہیے۔ ہمارے معاشروں کا اخلاقی اقدار کا معیار روبہ زوال ہے ، موجودہ حالات کے تناظر میں اس وقت ہمارے معاشرے میں افراد ایک دوسروں کو نقصان دینے کے درپے ہیں۔ ہر گلی محلے میں مسجد ہونے کے باوجود  محلوں اور گھروں میں صفائی ، ستھرائی کی ترغیب نہیں دی جاتی بلکہ جان بوجھ کوڑہ کرکٹ دوسرے گھر کی دلیز پر پھیک دیا جاتا ہے ،حدیث مبارکہ ہے



المسلم من سلم مسلمون من لسانہ ویدہ


 جس کا ترجمہ ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔


یہاں پر چند ایک ایسی غیر اخلاقی عمل اور باتیں جو ہمارے معاشرے کے افراد میں سراہیت کر چکی ہیں جن کی اصلاح کا کبھی بھی کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے نے کبھی اپنے واعظ و نصحیت میں نہیں کیا کا ذکر ہے۔


ہماری مساجد کے خطبوں کے  موضوعات اخلاقی تعلیم و تربیت سے عاری ہو چکے ہیں معاشرے کی تربیت کو کبھی بھی موضوع نہیں بنایا گیا بلکہ سیاست کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے ، امریکہ کے اوپر تجزیے کی بڑی اہمیت ہے مسلمانوں کی غیرت پر بہت گفتکو کی جارہی ہے لیکن یہ ذکر نہیں کیا جاتا کہ مسلمانوں کا اخلاق کتنا خراب ہو چکا ہے  وہ یہ تک نہیں جانتے کہ میں جس جگہ  گاڑی کھڑا کر کے جا رہا ہوں یہاں سے کسی مریض کو نکلا ہو گا کسی آدمی کو راستہ تلاش کرنا ہو گا مجھے اس معاملے میں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے لیکن ہمارے خطیب حضرات کا موضوع بالکل دوسرے چیز ہے اس کی وجہ شاہد یہ ہے جن مدرسوں سے یہ علم کا حصول کرتے ہیں اگر ان مدرسوں کی تعلیم کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے ان مدرسوں کے اندر یہ چیزیں سرے سے سیکھائی ہی نہیں جاتیں بلکہ اس کی الٹ صورت حال یہ ہے یہ تربیت دی جاتی ہے کہ یہ معاشرہ اور اس کا قانون یہ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے جس کی پیروی کرنی ہے اصلی چیز تو خدا کا قانون ہے، اس کا مطلب ہوا معاشرے میں جو قوانیں نافذ کئے جاتے ہیں یعنی ٹریفک کے قوانین بنانے پڑتے ہیں ضابطے بنانا پڑتے ہیں گلی محلوں میں کوڑہ کرکٹ ٹھکانے لانے کے ضابطے بنانے پڑتے ہیں یہ سارے قوانین انسان کی بہبود اور بہتری  کے لئے بنائے جاتے ہیں ان کا احترام بھی کرنا ہے۔ سرخ بتی پر رکنا اور جب کوئی نہ تو اس وقت رکنا ، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اگر قانون کی پابندی کرتے ہو تو میری اطاعت کرتے ہو، میری اطاعت کرتے ہو تو خدا کی کرتے ہو۔



جس معاشرے کے اندر قانون کی خلاف ورزی قابل فخر ہو  اس میں کیا کیا جاسکتا ہے ایسے غیر اخلاقی اقدار کے لئے مسجد خطیب، دانشوروں کا کردار بڑا اہم ہے ان غیر اخلاقی چیزوں کی برملا مزحمت کرنی چاہیے ، اخلاقیات کو اصل موضوع بنانا چاہیے   کیونکہ مسلمان اس وقت  جتنا رسوا ہوا وہ اخلاقی زوال کی وجہ سے ہے ، ہمارے اندار اخلاقی جارحیت کا فقدان ہے ، اخلاقی جارحیت کا مطلب ہے آخری حد تک اخلاقی ہتھیاروں سے لڑنا ہے یہ جنگ معمولی جنگ نہیں ہوتی لیکن اس میں کبھی سکشت نہیں ہوتی ، اخلاقیات پر عمل پیرا ہونا اس وقت مشکل ہوتا جب اسکا شعور نہ ہو، جب یہ جنگ لڑنے کا فیصلہ کر دیا جائے اور جب اعلیٰ اخلاقی اقدار شعور میں اتر جائے تو اس جنگ کی جیسی لذت کسی دوسری جنگ میں نہیں ہو گی اعلیٰ اخلاق کے کھڑے ہونے میں جو آدمی کو رفعت حاصل ہوتی ہے اُس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس کا کبھی کسی معاشرتی اداریں کی طرف سے شعور ہی نہیں پیدا کیاگیا کاش ہمارے مسجدوں میں خطبے ایسے موضوعات پر کئے جائے سال میں تقریباً باون جمعہ ہوتے ہیں اور باون خطبے ہوتے ہیں، اگر معاشرے سے باون برائیاں ہی ختم کر دی جائے اور باون اخلاقی اقدار کو فروغ مل جائے تو معاشرے میں تہذیب و تمدن کا انقلاب برپا نہ ہو جائے۔



معاشرے کی ایک ایک برائی تقاضا کرتی ہے ایک جمعے کا خطبہ اس کے لئے خاص کر دے اور ہر سال اس کو دہراتے جائے تو شاہد اس قوم کے اندر کوئی اصلاح پیدا ہو جائے لیکن جہاں صورت حال یہ ہو کہ مسجد کا لاڈ سپیکر آن ہو اور اعلانات  شروع ہوں لیکن یہ احساس نہ کہ مسجد کے پاس گھر والے کے ہاں کیا صورت حال ہوگی مریض کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا طالب علم کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا سونے کی خواہش رکھنے والے کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا یہ کیا چیز ہے جس مذہب میں دوسروں کو ایذا دینا یعنی یہ رسالت مآب ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے ہمسائے کو ایذا دیتے ہو اُسے تکلیف پہنچانتے ہو تو یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ تمھاری نمازیں بھی تمھارے منہ پر ماری جائے گی۔ ایک خاتون کے بارے میں کہا گیا کہ اس کے ہمسائے اس کی ایذا سے تنگ ہیں لیکن نوافل بہت پڑتی ہے لیکن وہ جہنم میں جائے گی۔


 


ہمارے اندر زندگی گزارنے کی  کوئی ترتیب اور ضابطہ ہی نہیں جو دین نے ہمیں سیکھایا  ہے ، ہم لوگ اطمینان کے ساتھ مسجد بناتے ہیں اس کے بعد دوسرے کے لئے زندگی مشکل بنا دیتے ہیں صبح صبح مائک کے منہ پر ٹیپ ریکاڈر رکھ کر امام صاحب رخصت ہو جائے ہیں اور تقریر سارے محلے کو سنائی جارہی ہوتی ہے اخلاقیات میں اگر یہ پستی ہو ، تو پھر دیگر سیاسی و دینی جماعتوں کو دیکھ لیں قوم کی اصلاح کرنے نکلی ہیں دیواریں اشتہاروں سے کالی کر دیتے ہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم اصلاح کرنے نکلے ہیں یا شر پھیلانے ، جن سے لوگوں کی گھروں کی دیواریں تک محفوظ نہیں،  مسلمان کی یہ خوبی بیان کی گئی ہے


المسلم من سلم مسلمون من لسانہ ویدہ


 کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔


ہم کچرے کو راستے اور سٹرک پر پھیک دیتے ہیں جس سے آنے جانے والے کو تکلیف پہنچتی ہے اور گاڑی دو منٹ پیچ سٹرک چھوڑ دیتے ہیں یا اس طرح کی کئی اور غیر اخلاقی چیزیں، سب کی سب احرام ہیں یہ گناہ ہے جس کا مواخذہ کیا جائے گا اس کے بارے میں بولنا پڑے گا یاد رکھے جس وقت بھی کوئی کام کریں سب سے پہلے اپنے ضمیر سے یہ سوال کرنا چاہیئے کہ میرے اس عمل سے کسی دوسرے کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی اگر ایسی غلطی ہو جائے جس کے درمیان  خدا اور آپ  ہی ہیں تو خدا اس غلطی کو معاف کر دے گا وہ رحیم و کریم ہے لیکن جب ایسی غلطی کی جائے جس سے دوسرے کو تکلیف پہنچی ہے تو پھر معاملہ اس شخص کے ساتھ قیامت کے روز کرنا پڑے گا۔ اس کے بارے حضورﷺ فرمایا جب تم نے کسی دوسرے کو ایذا پہنچا دی ہے تو اس نے وہاں معاف کرنے سے انکار کر دیا تو تمھارے پاس دینے کے لئے کیا ہو گا تو وہ کہے گا نیکیاں دے دو، تو دینی پڑے گی۔


اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاقیات کی اعلیٰ تعلیمات سیکھنے اور عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین


***


 



160