آزادی ۔۔یا ۔۔ دھرنامارچ

Posted on at




آزدی انسان کا بنیادی حق ہے،دنیا کی کوئی طاقت انسان کی آزادی نہیں چھین سکتی ۔انسان کے اس بنیادی حق کی وجہ سے اسلامی ثقافت حریت کی علمبردار ہے،اور اسلام میں ہر شخص کو آزادی رائے اور آزادی قول 
و فعل حاصل ہے اوریہ اگست کا مہینہ ہے،اس مہینے کی 14تاریخ کو مملکت پاکستان کے قیام کو67سال مکمل ہو گئے ہیں۔قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں67سال اگر زیادہ نہیں ہوتے تو کم بھی نہیں ہوتے۔14اگست1947؁ کے بعد پیدا 
ہونے والے لوگ اب بڑھاپے کی منزل کے راہی ہیں ،اس حوالے سے پاکستان ایک نسل سے دوسری نسل کے حوالے ہو چکا ہے اور پاکستان دو نسلوں کا سفر طے کر چکا ہے۔زندہ قومیں اپنے لیڈروں اور رہنماؤں کے فیصلوں اور اقدامات کا جائزہ لیتی رہتی ہیں اور یہ طے کیا جاتا ہے ہمارے بزرگ یا لیڈر کہاں غلط تھے اور ہمیں اس کا کیا نقصان ہوا؟اور وہ کہاں صحیح تھے اور ہمیں اس کا کیا 
فائدہ ہوا؟بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس کا رواج ہی نہیں اور نہ ہی ایسا ماحول بن سکا بلکہ ماحول بنانے کی ہر اس کوشش کو سختی سے کچل دیا گیاجبکہ ترقی یافتہ قوموں کی پالیسیاں ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر 
استوار ہوتی ہیں تا کہ ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو اور ملکی معیشت مستحکم ہو سکے،اس لیے کہ جہاں کوئی نظریہ نہیں وہاں کوئی منزل نہیں۔پاکستان کی67سالہ تاریخ میں کسی بھی شعبے کا جائزہ لینے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ دین و سیاست،اصول و آئین،حکومت و جمہوریت،دفاع و داخلی انتظام،معیشت و تجارت، صنعت و زراعت اور قانون و انصاف 
کسی بھی شعبے میں روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ہر طرف تاریکی ہی تاریکی چھائی رہی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں جمہوری اور سیاسی ریکارڈ بھی ایسا نہیں جس پر فخر کیا جا سکے بلکہ ندامت سے سر 
جھکے ہی جاتے ہیں۔سیاستدانوں کا کردار ایسا رہا کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دیتے رہے اور نظریاتی اعتبار سے بھی ان کا ذکر قابل فخر نہیں ہے۔موجودہ دور میں سیاستدانوں کا پارٹی بدلنا ایک فیشن بن گیا ہے اور اصول کی سیاست کا نام تک باقی نہیں رہا۔جب اقتدار کے نشے میں آکر حکمران اپوزیشن لیڈروں کو غداری کے سرٹیفیکیٹ دیتے رہے اور کل کے غدار 
آج کے حکمران بنتے بھی نظر آتے رہے۔افسوس اس بات پر ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنی تاریخ سے عبرت حاصل نہیں کرتے ہیں ۔کامیابی کی امید لگانے اور ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اپنی تاریخ سے عبرت حاصل کی جائے کیونکہ کامیابی اسی قوم کے 
قدم چومتی ہے جوتاریخ سے سبق سیکھے اور باربار غلطیاں نہ دہرائے۔اس وقت ملک میں آزادی کے مہینے میں دھرنوں اور مارچ کی سیاست ہو رہی جبکہ موجودہ حالا ت میں یہ جلسے جلوس ملکی مفاد کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ملکی مفاد اسی میں ہے کہ سسٹم کو چلنے دینا 
چاہیے۔حکومت کو کچھ کرنے کی مہلت دینی چاہیے،اس دوران اس کا قبلہ درست رکھنے کی خاطر غلط کاموں پر بھرپور تنقید کی جا سکتی ہے،اس لیے کہ زندہ قومیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں اورتاریخ چیخ 
چیخ کر پکار رہی ہے کہ ایک مضبوط سسٹم ہی امن وامان قائم کر سکتا ہے،کمزور اور غیر منظم سسٹم پاکستان کے لیے مصائب کے پہاڑ لا سکتا ہے۔اہل علم حضرات کہتے ہیں کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے اس وجہ سے ہم سب پر لازم ہے کہ اپنے ذاتی و لسانی اورفروعی اختلافات کو بالا طاق کر پاک وطن کو امن کا گہوارہ بنائیں کیونکہ اگر وطن قائم ہے 
تو اسی میں ہماری کامیابی ہے اور ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔ؒؒؒؒؒلہٰذا موجودہ وقت قوم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم من حیث القوم ایک ہو کر اس ملک کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں نہ کہ آپس کے انتشار و افتراق کو اس ملک پر مسلط کر کے ملک و قوم کوتباہی کے دہانے پر 
پہنچا ئیں۔

For more Subscribe me 


Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160