محمد بن قاسم نے آٹھویں صدی عیسوی میں جب سندھ کو فتح کیا تو ان کی آمد نے یہاں کے لوگوں کو حکمرانی کے فیاضانہ سلوک اور جمہوری طرز زندگی نے متاثر کیاان کو زندگی کے ایک نئے رخ سے متعارف کرایا بعد ازاں اگی صدیوں میں کابل کی طرف سے آنے والے حکمرانوں اور اولیاء کرام یہاں ایک نئی دنیا کوآشنا کرایا پندرہویں صدی میں تمام خارجی اور داخلی اثرات کے امتزاج نے ایک نئے تمدن کو جنم دیا جو جلد ہی تمام برصغیر میں پھیل گیا اگر چہ اس دوران وسطی ایشیا کی ریاستوں میں منگولوں نے مسلم ثقافت ، علم و ادب اور تہذیب و تمدن کو پامال کیا مگر دہلی کی مسلم سلطنت نے تاتاریوں کا مقابلہ کیا چنانچہ اس علاقہ مین مسلم مفکر اور اولیاء کرام بدستور اپمی ملی ثقافتی اور تحقیقی کاوشوں میں مصروف رہے
اسی دوران بعض ہندو مفکرین جیسا کہ ’’ رام داس ، تلسی داس اور نانک وغیرہ‘‘ نے ایسی تحریکیں شروع کی جو مختلف مذاہب کے پیروکارون کو متاثر کریں اور ان کے لیے قابل قبول ہوں مگر اولیاء کرام نے اپنی تہذیب سے ناطہ نہ توڑا ان تحاریک کے ذریعے مسلمانوں کے تہذیبی تشخص اور نظریات کو کمزور کرنے کی کوشش کا آغاز ہوا اور پس پردہ ان کا انجام مسلمانوں کا ہندو ازم میں ادغام تھا لیکن اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اولیاء کرام ان سے بچے رہے اور مسلمانوں کو اسلام کی تعلیمات دیتے رہے
۱۸۷۱ میں انگریز حکومت کے ایک سیکرٹری نے لکھا کہ کلکتہ مین مشکل سے ہی کوئی ایسا دفتر ہو گا جس مین کوئی ہر کارہ سے زیادہ کسی عہدے کی مسلمان توقع کر سکتا ہو یعنی مسلمانون کو دفتری او رحکومتی معا ملات سے بھی دور رکھا گیا ولیم ہنٹر نے واضح کیا کہ اپنی آنکھیں کیسے بند کرلوں جبکہ میرا یقین ہے کہ مسلمان نسل کا رویہ بنیادی طور پر ہی ہمارے خلاف معاندانہ ہے اس لیے ہماری پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ ہم ہندووں کے سر پر ہاتھ رکھیں لیکن ان حالات میں بھی بعض حضرات اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مسلمانون کے حقوق کے لیے لڑتے رہے جن میں سید احمد شہید ، حاجی شریعت اللہ ، حاجی محمد حسین ، مولانا احمد مدراسی جیسے عظیم لوگ شامل تھے
اس تحریک کے سرخیل مولانا فضل حق خیر آبادی تھے جنہوں نے انگریز کے خلاف فتوی دیا جب آپ انگریز کی عدالت میں پیش ہوئے تو آپ کی ذات بابرکات سے مرعوب ہو کر ایک گواہ مکر گیا آپ نے فرمایا یہ گواہ جھوٹ بھول رہا ہے وہ فتوی صحیح ہے اور میرا ہی تحریر کردہ ہے انگریز کے بارے میں آج بھی یہی رائے ہے ولیم ہنٹر نے اس آشوب کا ذکر یوں کیا سچ تو یہ ہے کہ جب ملک ہمارے زیر نگیں آیا تو مسلمان ایک برتع قوم تھی نہ صرف سپاہیانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے بلکہ سیاسی نظم اور عملی حکومت کے لحاظ سے بھی فوقیت رکھتی تھی