اسلامی ریاست کی تشکیل

Posted on at


 اسلامی ریاست کی تشکیل


ہماری ہاں عام طور پر اسلام کا نظام معاشرت ، اسلام کا نظام معشیت اور اسلام کا ںظام سیاست کو ہی امت مسلمہ کو موجودہ مسائل کے گرداب سے نکنے کا راستہ بتایا جاتا ہے، مسلم دنیا کی علمی تاریخ یہ بتاتی ہے اس قسم کے الفاظ تقریباً انسیویں صدی اور اس کے بعد سے استعمال کئے جارہے ہیں لوگوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ اسلام نے جامع ہدایات دیکر سیاست کے بارے میں ، معشیت کے بارے میں ایک جامع نظام بنا دیا گیا ہے ایسے ہی جیسے مغربی جمہوریت کا ںظام ہے یا سرمایہ دارنہ نظام ہے ایسا کوئی ںظام شریعت  نے بنا کے دے دیا ہے۔ یہ بات سب سے پہلے قابل غور ہے اور سمجھ کا تقاضا کرتی ہے اللہ تعالیٰ نے جو ںظام حکومت کا طریقہ بتایا ہے یا اختیار کر نے کا کہا ہے سب سے پہلے بات یہ ہے  اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا عقل اور دانائی دے  کر امتیازی شرف دیا جس کی بدولت انسان سوچتا ہے ماضی کے وقوع پزیر واقعات سے سبق سیکھ کر حال اور مسقبل کے لئے لائحہ عمل بناتا ہے اور معاشرے اور اپنے لئے ایک نظام کی تشکیل کے لئے تگ و دو میں مصروف رہتا ہے اجتمائی زندگی کے مطالق فیصلے کرتا ہے قانون سازی کرتا ہے اور معاشرتی ضروتوں کے مطابق اور تمدنی طور پر اس میں ارتقا کا عمل بھی جاری رہتا ہے اس میں  جہاں ٹھیک فیصلے ہوتے ہیں وہی کچھ بنیادی معاملات میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ بعض اوقات انسان کی عقل حالات سے ، تعصابات سے ، جذبات سے متاثر ہو جاتی ہیں ایسی چند بنیادی غلطیوں کی درستگی اور معاشرتی رہبری کے لئے اللہ تعالیٰ نے شریعت کی صورت میں انسان کی رہنمائی کی ہے۔ اس وقت جو دین ہمارے پاس ہے وہ حقیقتاً  ایمان و اخلاق کا نام ہے ، دین بنیادی طور پر قانون نہیں ہے۔



 دین کی بنیادی دعوت تو یہ ہے  کہ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے عارضی طور پر پیدا کیا ہے اس کے بعد دوسری دنیا بنے والی ہے موت کے بعد آپ کو خدا کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا اور یہ جواب دہی انسان کے اخلاقی رویوں کی بنیاد پر ہو گی تو ایمان و اخلاق دین کا بنیادی موضوع ہے ، دین انسان کو اندر سے پاکیزہ کرنا چاہتا ہے جہاں دین کے ضابطوں پر عمل کر کے جسمانی طہارت ملتی ہے وہی روحانی طہارت بھی ملتی ہے دین کی بنیادی دعوت باطن کو پاک کرنا ہے  قانون جس کو ہم شریعت کہتے ہیں اس کا دائرہ زندگی کے معاملات کو محدود طریقے سے بتاتا ہے لیکن جس سے زندگی کے تفصیلی معاملے  لئے جاتے ہیں جیسے قرآن مجید میں نماز کا ذکر اس طرح ہے ، اور نماز قائم کرو اور زکواۃ دہ، لیکن اس کا طریقہ ، تفصیلی اور عملی شکل حضرت محمدﷺ نے خود کر کے بتائی۔ اسطرح زندگی کے مختلف شعبوں کے لئے تھوڑی تھوڑی معلومات دے دی گئی ہیں سیاست ، معشیت ، معاشرت، جہاد ، دعوت ان تمام امور کے بارے میں اسلامی شریعت کا مطالعہ کیا جائے تو کسی میں چار دفعات ہیں کسی میں پانچ ہیں کسی میں چھ ہیں۔ قانون اور شریعت کا جہاں تک تعلق ہے محدود معاملات میں اللہ تعالیٰ نے مداخلت کی ہے ایسا ہونا بھی چاہیے انسان کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ اسے اندر پیدا کیا گیا ہے وہ اپنا راستہ دیکھ سکتا ہے اس کے بعد جہاں کوئی رکاوٹ آتی ہے وہاں انسان کی رہنمائی کر دی گئی ہے۔ سیاست کے معاملے کو دیکھ لے، کل پانچ دفعات ہیں جو سیاست کے مطالق قرآن مجید میں بیان ہیں اگر ان پانچ نکات پر نظر ڈالی جائے وہ چند اصولی چیزیں ہی ہیں جو بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ ایک مسلمان کی حثیت سے  میں انفرادی طور پر اس کا پابند ہوں کہ اگر اللہ اور اللہ کے پیغمبر کی کوئی ہدایت پہنچتی ہے تو میں اس کی پیروی کروں۔ بالکل اسی طرح سے مسلمان اپنی اجتمائی حثیت میں بھی اس بات کے پابند ہیں کہ اللہ اور اللہ کے پیغمبر کی کوئی ہدایت پہنچتی ہے تو اس کے آگے سر تسلیم خم کرے اور اگر اللہ اور اللہ کے پیغمبر نے کوئی حکم دیا ہے تو اس میں میرے لئے کوئی کلام کی گنجائش ہے نہ کسی دوسرے کے لئے ، یہ اصولی بات بیان کر دی گئی ہے  اس میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے جو بھی مسلمانوں کا نظام قائم ہو گا اس میں مسلمانوں کو رویہ بغاوت اور انحراف پرمبنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ خیرخوائی اور موافقت کا ہونا چاہیے اور اس میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی اگر کسی چیز میں اختلاف ہو گا  تو آخری حثیت اور اتھارٹی اللہ اور اللہ کے رسول کو حاصل ہے سورہ نساء کی آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے جس کی تفسیر اس طرح ہے  تم اللہ کی اطاعت کرو اللہ کے پیغمبر کی اطاعت کرو اور جن معاملات میں حکومت کی پیروی  کرنی ہو تو کرو اور اگر اس میں کوئی جھگڑا اور فساد ہوتا ہے تو اس میں آخری حثیت اللہ اور اس کے رسول کو حاصل ہو گی۔ دوسری بات جو فرمائی گئی ہے کہ مسلمانوں کے ملک میں مسلمانوں کا طرز حکمرانی ہر حال میں مسلمانوں کی رائے پر مبنی ہو   مجلس شوریٰ کا اصول ایک آفاقی اصول ہے زندگی کے تمام معاملات میں جب اجتماعی فیصلے کئے جائےتو اس میں مسلمانوں کی رائے سے کرے گے جس سے ثابت ہوا.



تمام معاشرتی فیصلوں میں مسلمانوں کی رائے کا احترام ناگریز ہے جس کا لازمی نتیجہ اکثیریت کا ہر حال میں فیصلہ حتمی فیصلہ کن ہو گا، صوبائی معاملات ہوں بلدیاتی معاملات ہوں سیاسی معاملات ہوں جن معاملات کا تعلق اجتمائیت سے ہے معشیت سے ہوں یہاں تک کہ دین کی تحویل بھی اگر کرنی ہے ایک رائے ابو حنیفہ ؒ کی ہے ایک رائے شافیؒ کی ہے ایک رائے شاملؒ کی ہے تو عام رائے کی حثیت سے کس کو قانون بنایا جائے گا جس رائےمیں اکثریتی مسلمان ہو گے۔ قرآن کی روح سے بات کا سرسری جائزہ یہ ہے اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اسلامی ملک کے اندر طرز حکومت استبدادی حکومت نہیں ہے یہ کوئی پاپائیت نہیں ہے اس میں ملاؤں کی حکومت قائم نہیں کی جائے گی اس میں کوئی کلیساء نہیں ہے جس میں کسی کو حتمی اختیار حاصل ہے اس میں کوئی ظل الہیٰ نہیں ہے اس میں کوئی فوجی آمر نہیں ہے اس میں آسمان سے کوئی نازل نہیں ہو گا مسلمان اپنے معاملات کا فیصلہ باہمی رضا مندی سے کرے گے اور اپنی رائے کے مطابق قانون ملک یا ریاست میں نافذ کرے گے۔  تیسرے بات اسلامی ریاست کے مطالق جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمائی جس کے مطابق تمام معلامات میں عدل و انصاف اولین ترجیح ہو ایک اسلامی ملک میں تمام امانتیں حق داروں کے سپرد کی جانی چاہیے یہ ظاہری اصول ہیں کیونکہ اگر معاشرے کے اندر میرٹ کی بالادستی نہیں ہیں اور امانتیں حق داروں کے سپرد نہیں ہیں تو عدل اجتمائی یا سوشل جسٹس نہیں ہو گا۔ اختلافات میں فیصلہ سازی کے لئے عدل کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے یہ دینی اور اخلاقی مصدقات ہیں اور سارے انسانوں کا ضمیر بھی اسے مانتا ہے۔



 چوتھی بات یہ ہے چار چیزیں ایک اسلامی ریاست کی دینی ذمہ داری ہے اُسے قرآن مجید نے خود بیان کر دیا ہے اور بتا دیا ہے جس کی تفسیر اس طرح ہے کہ اگر یہ مسلمان ہیں جن کو زمین میں اقتدار بخشیں گے تو یہ نماز کا اہتمام کرے گے یہ زکوۃ ادا کرے گے یہ بھلائیوں کی تلقین کرے گے یہ برائیوں سے روکے گے۔


آخری بات یہ ہے کیا اسلامی ریاست جبراً کسی فرد بر قانون نافذ کر سکتی ہے یا ٹھونس سکتی ہے مثال کے طور پر لوگوں پر بالجبر پردہ کرا سکتے ہیں بالجبر کاری کرا سکتے ہیں اس طرح کے معاملات میں ریاست اور افراد کا کیا تعلق ہو گا قرآن مجید نے اس کے مطالق اپنا فیصلہ سنایا کہ نماز اور زکٰوۃ کے علاوہ اسلامی ریاست کسی قانون کو جبراً نہیں ٹھونس سکتی۔ باقی تمام معاملات میں یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ جب لوگ دین کو قبول کر لیتے ہیں وہ نماز کا اہتمام کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں پھر اس کے بعد ان کا راستہ چھوڑ دو، پھر برابر کے حقوق ان کو حاصل ہیں اور مسلمان کی حثیت سے ان کے خلاف کوئی کروائی نہیں ہو گی۔  یہ پانچ چیزیں بنیادی حثیت رکھتی ہیں۔


ایک اسلامی ریاست  میں مسجدوں کے قیام کی ذمہ داری حکومت کو ہے جو سنت کی پیروی ہے۔   جب مسجد کو عالم کے سپرد کیا جاتا ہے تو عالم کوئی طرز فکر رکھتا ہو گا کوئی نقطہ نظر رکھتا ہو گا تو نتیجتاً فرقہ بندی پیدا ہو گی اور محکم ہو گی اور آہستہ آہستہ معاشرے میں یہ معاشرتی بیماری سراہیت کر جائے گی اس لئے اسلامی ارتقائی زمانہ میں یہ قانون بنا دیا گیا تھا کہ جمعے کا ممبر مسلمانوں کے لئے خاص ہے اور ارباب اختیار کو مسجد کے مطالق کر دیا گیا تھا ہر ہفتے آ کے نماز پڑھائے گے اور عوامی اجتماع سے مخاطب ہو گے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرے گے لہذا ایوان اقتدار کا تعلق مسجد سے قائم کر دیا گیا۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں جمعہ کا ممبر مسلمان حکمرانوں کے لئے خاص تھا یہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ جمعہ کے ممبر پر ماسوائے صاحب اقتدار کے کوئی اور کھڑا ہو جائے جو بغاوت کے ضمرے میں آتا تھا جس سے معاملے کی اہمیت کی نزاکت کا علم ہو جاتا ہے۔ حتی کہ جلیل القدر آئمہ امام ابو حنیفہ، امام شافی، امام مالک ، امام شامل کے مطالق کبھی نہیں سنا گیا کہ وہ جمعہ کا خطبہ دیتے تھے۔ یہ سارے اختیارات ریاست کے پاس تھے۔ یہ سارے اختیارات عوام الناس کو تلقین اور نصحیت کی خاطر ریاست کے ارباب اختیار اور علاقے کے نائبین کو سونپے ہوئے تھے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بھی بلائے، دینی ذمہ داری کے ساتھ اپنے آپ کو عوام کے سامنے احتساب کے لئے بھی پیش کرے۔


اس کے علاوہ ایک اسلامی معاشرے میں نظام حکومت اور مستحقین کے اخراجات کو زکوۃ کے ذریعے پورا کرنا ہے باتیں لکھنے کو بہت ہیں  جو ایک جامع اسلامی معاشرے کی خصوصیات پر لکھی جاسکتی ہیں قاری کی معلومات میں اضافہ کرسکتی ہیں۔  آئیدہ کے مضمون میں اسلامی ریاست کی مزیز خوبیوں کا احاطہ کیا جائے گا۔


***


 



160