ذریعہ تعلیم کون سا ہو؟

Posted on at


ذریعہ تعلیم کون سا ہو؟

انگریزی ضرور سیکھنی چاہیے لیکن اسے ذریعہ تعلیم بنالیناکسی صورت میں ٹھیک نہیں ہے۔ صوبہ پنجاب کی موجودہ حکومت نے اپنے پچھلے دورانیے میں اعلان کیا کہ صوبہ بھر کے سرکاری  سکول ، انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم اختیار کریں گے۔ اس پالیسی کے درج ذیل تین مقاصد تھے

۔ انگریزی زبان کی تدریس

۔ معیار تعلیم بہتر بنانا 

۔ بچوں کو حصول علم کے قابل بنانا

یہ پالیسی مندرجہ بالا کسی ایک مقصد کے حصول کے لیئے بھی مناسب نہیں رہی۔ مثلاً اگر اس پالیسی کا مقصد بچوں کو انگریزی زبان سکھانا تھا تو

اس حقیقت میں تو کوئی دورائے ہی نہیں ہے کہ بچے اجنبی زبان کی بجا ئے اپنی مادری زبان میں مشکل تر تصورات بآ سانی سمجھتے ہیں۔ اس لیے انگریزی ذریعہ تعلیم کے جبری نفاذ سے بچوں کو انگریزی تو کیا آئے گی وہ تعلیم سے بھی دور بھاگیں گے۔ جس کے مظاہر اس پالیسی کے نفاذ کے بعد ہمیں جا بجا ملتے ہیں۔

اسی طرح اگر اس پالیسی کا مقصد معیار تعلیم میں بہتری لانا تھا تو انگریزی ذریعہ تعلیم کا اس مقصد کے حصول سے کوئی دور کا تعلق بھی نہیں بنتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اساتذہ انگریزی زبان میں تدریس میں آسانی محسوس نہیں کرتے اور دیہی علاقوں میں پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی غالب اکثریت واقعی آسانی محسوس نہیں کرتی تو پھر ان کو انگریزی زبان میں تدریس پر مجبور کرنا، معیار تعلیم پر الٹے منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بنتا ہے۔ گو کہ بہت سارے اساتذہ کو انگریزی زبان میں تدریس کی ،،تربیت،، بھی دی جاتی ہے لیکن اس ،،تربیت،، کا دورانیہ گنتی کے محض چند روز پر مشتمل ہوتا ہے۔ کیا اساتذہ سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ چند روزہ اس تربیت کے نتیجہ میں ایک نئی زبان سیکھ لیں گے اور پھر اس میں تدریس کا عمل بھی سر انجام دے لیں گے۔ جب امتحانی نتائج سامنے آئیں گے اور والدین دیکھیں گے کہ ان کے بچے نہ تو انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرسکے ہیں نہ ہی ان کا معیار تعلیم بہتر ہوا ہے تو رد عمل کیا ہوگا؟ اس پالیسی کے نتیجے میں ایسا ہونا ناگزیر ہے۔ لہذا ذریعہ تعلیم کی پالیسی نہ تو معیار تعلیم میں بہتری لانے کا باعث بن سکتی ہے اور نہ ہی انگریزی زبان میں مہارت کے حصول میں کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ نتیجتاً بچوں کو حصول تعلیم کے قابل بنانے کے مقصد کا پورا ہونا بھی ممکن نہیں رہتا۔

اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسکول کی سطح پر بچے انگریزی زبان میں یقینی مہارت حاصل کرلیں تو ہمیں تدریس انگریزی کے طریقہ کار میں بہتری لانا ہوگی اور اس کو صرف اور صرف انگریزی زبان کی تدریس کے اساتذہ کے معیار تدریس میں بہتری لا کر ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ بہت سارے ادارے انگریزی تدریس کے حوالے سے بے شمار پروگرام پیش کرتے ہیں۔ ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ یہ ادارے اور یہ پروگرام کس حد تک ہمارے انگریزی تدریس کے اساتذہ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اسکولوں میں معیارتعلیم کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تو یہ محض انگریزی ذریعہ تعلیم اپنانے سے ممکن نہیں ہوگا بلکہ یہ اپنی مادری زبان میں سیکھے گئے تصورات کو پوری مستعدی کے ساتھ انگریزی زبان میں منتقل کرنے سے ہوگا۔ اس کے لیے اساتذہ کا اہل اور قابل ہونا ضروری ہے تاکہ وہ بچے کو بنیادی تصورات کی تفہیم اس زبان میں کروائیں جو زبان وہ با آسانی سمجھ سکتے ہوں۔ نیز اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سے متعلقہ دیگر مثالیں اور تصورات بھی باور کروائے جائیں جو بچے کی ذہنی استطاعت کے مطابق ہوں۔

کسی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے تقاضے کچھ اور ہیں جو ذریعہ تعلیم کی بحث و تکرار سے بلکل مختلف ہیں۔ یہ دو الگ الگ مسئلے ہیں۔ علاوہ ازیں معیار تعلیم پر ایسی پالیسیوں کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ محض ذریعہ تعلیم کی تبدیلی، کبھی بھی ،،معیار،، کے مسئلہ کا حل پیش نہیں کر سکتی۔ معیار میں بہتری لانے کے لیے ان مسائل کو براہ راست، اساتذہ کی تربیت، ان کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کے بہتر نظام اور ان کو فراہم کردہ معاونات کی بہتر سہولیات کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔ 



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160