زندگی کا وہ سفر جو ایک سیارے سے دوسرے سیارے، بلکہ ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک جاری رہا، اور زندگی ساری کہکشاں بلکہ کائنات میں پھیل سکتی ہے

Posted on at



نظامِ شمسی آج سے قریب 4.7 ارب سال پہلے ہماری کہکشاں میں موجود ایک گیسی بادل کے سمٹنے سے وجود میں آیا، اس وقت شہابیے کروڑوں کی تعداد میں روزانہ زمین پر گرتے تھے اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہماری زمیں کا بہت بڑا حصہ یہی گرنے والے شہابیے ہیں، اس وقت کی زمین آگ کا گولا تھی، روز روز نئے شہابیے زمین میں شامل ہو رہے تھے اور زمین کا ہجم بڑھ رہا تھا ایسا ہی نظامِ شمسی کے سب سیا روں کے ساتھ ہو رہا تھا، تمام سیارے نطامِ شمسی میں پھیلے ہوئے ان پتھروں اور گیس کو اپنی کشش ثقل کے باعث اپنی طرف کھینچ رہے تھے، رفتہ رفتہ ایسی گیس اور شہابیوں میں کمی آتی رہی اور یہ سیاروں کا حصہ بن گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نظآمِ شمسی کا مطلع صاف ہونے لگا اور یہ سب شہابیے جو سورج کے گرد محو گردش تھے صرف اس وقت سیاروں سے ٹکرانے لگے جب ان کے مدار سیاروں کے مدار سے میل کھاتے تھے، باالآخر صرف ایسی شہابیے ہی بچ گئے جو سیاروں کے مداروں کے رستے میں نہیں آتے تھے۔ واضع رہے کہ نظامِ شمشی صرف سیاروں، سورج اور چاند پر مبنی نہیں ہے بلکہ شہابیے اسکا سب سے بڑا حصہ ہیں، سورج سے تقریباً 1 نوری سال کے فاصلے تک شہابیوں کا ایک وسیع و عریض بادل ہے، جو سورج کے گرد محو گردش ہے، اسکو اورٹ کلاؤڈ کہا جاتا ہے اسمیں کھربوں کی تعداد میں ہر ہجم کے شہابیے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شائد زندگی بھی ان شہابیوں کے ذریعے ہی ابتدائی زمین تک پہینچی ہو۔

زندگی کائنات کا سب سے حیرت انگیز عمل ہے، اگر زمین پر زندگی کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر ایسی جگہیں جہاں زندگی ناممکن نظر آتی ہے وہ بھی زندگی سے بھری پڑی ہیں، جی ہاں میں مائکروحیاتیات کی بات کر رہا ہوں، جراثیم ، وائرس ، بیکٹیریا وغیرہ زمین کے ہر حصے اور ہر جگہ پر پائے جاتے ہیں، سرد سے سرد(ایبسلوٹ صفر سے کچھ اوپر)، گرم سے گرم(سینکڑوں ڈگری پر)، سطح زمین سے میلوں نیچے، سمندر کی اتھاہ گہرائی میں، قرہ ارض کے اوپری حصے میں انتہائی کم ہوا میں معلق، نیز مائکرو حیاتیات نے زمین کے گرد ایک حیتیاتیای غلاف بنایا ہوا ہے۔ ایسے مائکروحیاتیات جو انتہائی مشکل حالات میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں انکو ایکٹریموفائل(Extremophiles) کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے حیتیات پر خلا میں بھی تجربات کیے گئے، ان میں سے کچھ حیاتیات تو خلا میں باآسانی لمبے عرصے تک زندہ رہے، اور باقی کے کچھ جو بظاہر مر گئے زمین پر لانے پر دوبارہ سے زندہ ہو گئے، ایسی ہی مثال انٹارکٹک کی برف میں دبے ہوئے لاکھوں سال سے مردہ مائکرو حیاتیات کی ہے جب ان کو گہرائی سے نکالی ہوئی برف سے واپس سطح پر لایا گیا تو یہ ایک بار پھر سے زندہ ہو گئے اور افزائشِ نسل کرنے لگے۔

ابتدائی زمین کے قیام میں آنے کے ایک ارب سال بعد زمین پر زندگی کے ابتدائی آثار ملتے ہیں، اور واضع رہے یہ مائکرو حیاتیات تھے، مگر اس کے بعد بھی زمین پر شہاب ثاقب کی بارش متواتر ہوتی رہی کیونکہ نطامِ شمسی کی ابتدا سے بچے ہوئے شہابیے ابھی بھی سورج کے گرد محوگردش تھے اور نظام شمشی کے بیرونی حصے سے سیاروں کی جانب سفر کرتے رہتے تھے(یہ آج بھی ہو رہا ہے مگر ابتدئی نظام شمسی کی نسبت شہابیوں کی تعداد کم ہو چکی ہے) اب اس وقت میں زمین پر مائکرو حیاتیات موجود تھے، اور جب بھی ایسا کوئی شہابیہ زمین سے ٹکراتا تو یہ زمین کے پتھروں کو شدت سے خلا میں اچھال دیتا، جیسا کہ پانی میں پتھر مارنے پر پانی اچھلتا ہے۔ خلا میں پہنچنے پر یہ زمینی پتھر زمین یا پھر سورج کے گرد محو گردش ہو جاتے، وہاں زمین پر شہابیہ گرنے کے باعث زمین ایک دفعہ پھر سے آگ کی لپیٹ میں آجاتی اور تمام زندگی نا پید ہو جاتی مگر خلا میں محوگردش زمینی پتھر جو مائکرو حیاتیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتے زمین سے دور اس زندگی کو سنبھال کر رکھتے اور مائکرو حیاتیات اس پتھر کے اندر سو جاتے(ہائیبرنیٹ)، مائکرو حیاتیات میں سے بہت سے اس طرح خلا میں زندہ رہنے کے لئے ارتقاء پا گئے(اسی وجہ سے عصر حاضر میں کئے گئے حیاتیات خلا میں زندہ رہے یا دوسری جانب یہ آئے ہی خلا سے تھے)، آخر جب یہ پتھر دوبارہ زمین سے ٹکراتے تو اپنے اندر سنبھالی ہوئی زندگی واپس زمین کو دے دیتے جس سے زمین پر زندگی کا سلسہ دوبارہ سے شروع ہو جاتا۔ اس طرح کے ایکسٹریموفائل حیاتیات کو اگر خلا میں سورج کے گرد محو گردش اگر صرف 1 میٹر چوڑے پتھر ہی میں جگہ مل جائے تو یہ ایک انتہائی لمبے عرصے تک سوئے رہ کر دوبارہ جاگ سکتے ہیں۔

یہاں پر ایک اور بات بتانا چاہوں گا، مصر میں 1911 میں سکندریہ سے کچھ فاصلے پر ناکلہ کے گاؤں میں آسمان سے ایک شہابیے کے ٹکڑے گرے ، انکو شروع میں کسی بھی عام شہابیے کےطور پر دیکھا گیا مگر انکی اہمیت 1979 میں تب بڑھ گئی جب وائیکنگ سیارگان مریخ پر اترے اور اسکے پتھروں اور آب و ہوا کا پتا چلایا، اس پر یہ ثابت ہوا کہ ناکلہ کا شہابیہ کسی بڑے شہابیے کے مریخ سے ٹکرانے کے باعث خلا میں اچھالا گیا تھا، بہت عرصہ سورج کے گرد محو گرش رہنے کے بعد زمیں پر آن گرا۔ نتیجتاً ثابت ہوتا ہے کہ ، ایسے شہابیے ایک سیارے سے نکل کر دوسرے سیارے پر جا گرتے ہیں، اور اس طرح زمین سے مریخ، میریخ سے زہرہ شہابیے آتے جاتے رہتے ہیں جن میں سوئی ہوئی زندگی بھی ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک پہنچتی رہتی ہے۔ اب اس زندگی کو جہاں ساز گار آب و ہوا ملی یہ پروان چڑھ جاتی ہے، مطلب زنگی زمین پر پروان چڑھ گئی مگر مریخ یا زہرہ پر اسکو اتنے ساز گار حالات نہیں ملے، اور آج بھی سورج کے گرد محو گردش شہابیوں میں یقیناً زندگی موجود ہو گی۔

اس سے بھی زیادہ قابل غور یہ بات ہے کہ ایک ستارے کے گرد محو گردش ایک سیارے سے زندگی دوسرے ستارے کے گرد محو گردش سیارے تک کیسے پہنچ جاتی ہے، ہمارا سورج ملکی وے کہکشاں کے وسط میں موجود ایک انتہائی طاقتور کشش ثقل رکھنے والے بلیک ہول کے گرد محو گردش ہے، سورج کو اسکے گرد اپنا مدار پورا کرنے میں بائیس کروڑ پچاس لاکھ سال لگتے ہیں، اس دوران سورج گیس کے کم از کم تین گیس کے بادلوں سے گزرتا ہے، واضع رہے کہ ایسے بادل ہی ستاروں کی جنم گاہیں ہوتی ہیں، ہمارا نظامِ شمسی بھی ایسے ہی ایک بادل کے سمٹنے سے وجود میں آیا تھا۔

ان گیس کے بادلوں میں موجود بہت سے شہابیے سورج کی کشش ثقل کے باعث سورج کے ساتھ (اورٹ کلاؤڈ میں)شامل ہو جاتے ہیں، جبکہ سورج کے گرد(اورٹ کلاؤڈ میں) گھومنے والے کچھ شہابیے ان گیس کے بادلوں کی کشش ثقل کے باعث ان بادلوں میں، یا ان بادلوں کی کشش ثقل کی وجہ سے بین الستاراتی(Interstellar Space) خلا میں رہ جاتے ہے ہیں، پھر ان بادلوں سے جب کوئی اور ستارہ گزرتا ہے یا کوئی نیا نظامِ شمسی پیدا ہوتا ہے تو سورج کے چھوڑے ہوئے شہابیوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے ، یا پھر بین الستاراتی خلا میں آوارہ گردی کرتے کرتے یہ شہابیے کسی اور ستارے کے نظام شمسی کا حصہ بن جاتے ہیں، اور آخر کار اس ستارے کے سیاروں پر گرنے کے باعث زندی کا خزانہ اس سیارے پر اتار دیتے ہیں، اگر اس شہابیے میں چھپی ہوئی زندگی (جو زمیں پر شروع ہوئی)کو زندگی کے لئے موزوں ماحول(مثلاً پانی، صحیح درجہ حرارت) ملتا ہے تو ان سیاروں یا انکے چاند(جیسا کہ مشتری کے چاند زندگی رکھنے کے قابل ہیں) پر زندگی شروع ہو جاتی ہے اور ارتقاء کا عمل زور و شور سے شروع ہو جاتا ہے۔
آج سے 4 ارب سال بعد ہماری کہکشاں ملکی وے انڈرومیڈا(Andromeda) کہکشاں سے ٹکرا جائے گی(گو کہ یہ ٹکراؤ پر امن ہو گا، ستارے انتہائی زیادہ فاصلے کی وجہ سے آپس میں انتہائی کم ہی ٹکرائیں گے)، ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے اور آنے والے اربوں سالوں تک ہوتا رہے گا، کہکشائیں ایک دوسے کے قریب اور دور ہوتی رہتی ہیں، اس وقت زندگی کا سفر کہکشاں سے کہکشاں تک بھی جاری رہ سکتا ہے، کیونکہ کچھ ستارے اپنی وفاداری بدل کر ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں میں شامل ہو جاتے ہیں، اور وہاں پر زندگی پھیلانے کا سفر شروع کر سکتے ہیں،
یہ عمل اربوں سالوں پر محیت ہوتا ہے ، مگر کائنات کے پاس وقت کی کمی نہیں ہے۔ اسی طرح ایک سیارے سے دوسرے سیارے، ایک سورج سے دوسرے سورج کرتے کرتے مائکرو حیاتیات ساری کہکشاں اور کائنات میں پھیل جاتے ہیں۔ اگر اس عمل کو دیکھا جائے تو ہماری کہکشاں میں زندگی کافی کثرت سے پائے جانے کے روشن امکانات ہیں، اور ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے مطابق جہاں زندگی کو جیسے حالات ملے اسکے مطابق ڈھل جاتی ہے، کیا پتا ان دور افتادہ ستاروں اور سیاروں میں زندگی نے کیسا روپ دھارا ہو، ارتقاء نے کیا کیا رنگ و ڈھنگ دکھائے ہوں، یہ تو جب ہم دیکھیں گے تو معلوم ہو گا ابھی تو قیاس ہی کر سکتے ہیں، اور کیا پتہ کہیں ارتقاء کا نتیجہ جاندار ہماری طرح کسی سیارے پر بیٹھے یہی سوچ رہے ہوں کہ دوسرے سیاروں اور ستاروں پر زندگی کیسی ہو گی، یا پھر سائنسی ترقی کی معراج پر کچھ جاندار زندگی کو کائنات میں پھیلا رہے ہوں۔

اس پوسٹ کی توجہ اس بات پر نہیں کہ زندگی شروع کیسے ہوئی بلکہ اس بات پر مرکوز ہے کہ زندگی میں ایسی صلاحیت بھی موجود ہے کہ یہ پوری کائنات میں پھیل جائے، شائد زمین پر بھی زندگی اسی طرح آئی ہو؟ یا کسی اور دور افتادہ سیارے کو زمین نے اسی طرح زندگی دی ہو؟ اس نظریے کی روشنی میں امکانات لامحدود ہیں۔ اب یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ زندگی اتنی نازک نہیں جتنا کہ ہم سمجھتے تھے، زنگی انتہائی سخت جان ہے۔ اور انسان ہماری کہکشاں میں پائی جانے والی زندگی کا شائد ایک انتہائی معمولی سا حصہ ، مگر ہم انسان عظمت کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں اگر ہم اپنے آپکو وسیع کائناتی تناظر میں دیکھیں نہ کہ رنگ، نسل، ملک، ملت اور زبان کے تنگ نظر تناظر میں، ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ہم زمین کے باسی ہیں اور ہمیں ایک دن کائنات کے باسی بننا ہے جیسا کہ ہمارے ابتدائی جد رہے ہونگے، سیاروں اور ستاروں کو مسخر کرنا ہے، اسکی ابتدا ہو چکی ہے، مگر اس بات کی اہمیت سے ہم ابھی پوری طرح واقف نہیں ہوئے مگر ہمارا کائناتی تعلق ایک حقیقت ہے۔



About the author

160