تہارف غزل

Posted on at



 


غزل کے لغوی محنی ذکر شباب یا محبوب سے باتیں کرنے کے ہیں . ہرن کی اس کرب ناک آواز کو بھی غزل کہتے ہیں جو اس کے


 


شکار ہوتے وقت اس کے حلق سے نکلتی ہے .یا اس وقت نکلتی ہے جب اس کے سینگھ کسی جھاڑی مے پھنس جاتے ہیں . ل استلہ مے غزل سے مرد شاعری کی وو قسم ہے جس مے معاملات حسن و عشق کا بیان خلوص دل کی چاشنی کے ساتھ ایک خاص ہیت اور آہنگ کے ستہ مجود ہو دلی جذبات جا اظہآر ہجر و وصال کی کیفیت ،شکایت زمانہ ، مضامین حقیقت و عرفان بھی اس کے خصوصی موزوات ہیں .
بہترین غزل ووہی کہلانے کا مستحق ہے جو اپنے عاشقانہ جزبات اور اندرونی احساسات کو اس تریقے سے بیان کرے کے ان کو سن



 


کر سامحین کو یہ محسوس ہو کے سب حلات خود ان پر گزر چکے ہیں یا پیش آنے والی ہیں.
ہیت کے احتیبار سے غزل پانچ ،سات ،نو ،اشعار پر مشتمل ہوتی ہے .اس کا ہر شھر بسا اوقات اور وہم وادیف ہوتا ہے .
پہلا جملہ جس کے دونو مصرے ہم قافیہ وہم ردیف ہیں . مطلع کہلاتا ہے.
جس میں شاعر اپنا تخلص لاتا ہے مقطع کہلاتا ہے .
غزل کے ہر شہر اپنی جگہ موزوح کے اعتہبر سے ایک مستقل اکائی کی حسیات رکھتا ہے . اس انفرادی حثیت میں اس کا تعلق



 


دوسرے اشعار سے نہیں ہوتا .
اس لیے غزل کے ایک شهر میں اگر محبوب کے حسن کی کیفیت کا بیان ہے تو دوسرے مے اس کے ظلم و ستم کا بیان ،تیسرے مے ہجر کی کیفیت اور تو چوتھے میں الله کے ایک ہونے کا اقرار کیا جاتا ہے .
اس طرح غزل کا ہر شھر موزوہ کے اعتبار سے آزاد ہوتا ہے.
لکن ردیف قافیہ اور قیود کے لہٰذ سے پابند ہوتا ہے.
ااحد جدید مے غزل مسلسل کے عمدہ نمونے بھی پیش کے گے .
اس طرح غزل کو ایک موزوح کو مختلف انداز سے تمام اشعار مے سمویا جاتا ہے .قدیم غزل کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے . بسا اوقات غزل گو ، غزل مے ایک ہی موضوع پر مسلسل دو تین اشعار کہ دیتا ہے .



غزل کے درمیان آنے والے اس طرح کے اشعار کو قطعہ بند کہا جاتا ہے .
اس ہستے میں شاعر حسن و عشق ، شباب و شراب کا بیان کرتا ہے یا اخلاقی باٹن پیش کرتا ہے . اہل ایران نے قصیدے کے اس حصے کو الگ کیا یہ حصہ غزل کا روپ دھار گیا .
غزل ایران مے خوب پروان چڑھی . اس طرح سعدی ، حافظ اور جامی نے جیسے بے مثل غزل گو پیدا ہوے



About the author

amjad-riaz

you can ask me

Subscribe 0
160