بوسیدہ کپڑوں میں جواں تن کو چھپائے
شہر کی پر شور سڑکوں سے گزرتی ہے
پھٹے جوتوں میں اس کے پاؤں جلتے ہیں
گلابی گال ۔۔۔ لمبی دھوپ کی یکساں تمازت سے
پگھلتے ہیں،
رفاقت کے لیے ترسی ہوئی ہے زندگی
منزل سے ہے ناآشنا
ہونے نہ ہونے کی ادھوری کشمکش میں مبتلا
غم، راستے پر زندگی کو دیکھتا ہے
دیکھتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔
آخر زندگی پلکیں اٹھاتی ہے
محبت کے لیے ترسا ہوا غم، مسکراتا ہے
محل کے اک جھروکے سے کوئی تالی بجاتا ہے
زندگی
Posted on at