کسے پوچھوں ہے ایسا کیوں بے

Posted on at


کسے پوچھوں ہے ایسا کیوں بے زُباں سا یہ جہاں ہے
خوشی کہ پل کہاں ڈھونڈھوں بے نشاں سا وقت بھی یہاں ہے
جانے کتنے لبوں پہ گلے ہیں زندگی سے کئی فاصلے ہیں
بس جیتے سپنے کیوں آنکھوں میں لکیریں چھوٹیں جب ان ہاتھوں سے
بے وجہ
جو بھیجی تھی دعا وہ جا کہ آسماں سے یوں ٹکرا گئی
جو بھیجی تھی دعا
وہ جا کے آسمان سے یوں ٹکرا گئی
کے آ گئی ہے لوٹ کے صدا
کیسے پوچھوں ہے ایسا کیوں
بے زبان سا یہ جہاں ہے
خوشی کے پل کہان ڈھونڈوں
بے نشان سا وقت بھی یہاں ہے
جانے کتنے لبوں پے گلے ہیں
زندگی سے کئی فاصلے ہیں
بسے جاتے ہیں سپنے کیوں آنکھوں میں
لکیریں جب چھوٹی ان ہاتھوں سے یوں بےوجہ
جو بھیجی تھی دعا
وہ جا کے آسمان سے یوں ٹکرا گئی
کے آ گئی ہے لوٹ کے صدا
سانسوں نے کہان رخ موڑ لیا
کوئی راہ نظر میں نہ آیے
دھڑ کن نے کہان دل چھوڑ دیا
یہی سوچتا میں بار بار تنہا میں یہاں
میرے ساتھ ساتھ چل رہا ہے یادوں کا دھواں
جو بھیجی تھی دعا.....

وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں ، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا ، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی...


TAGS:


About the author

160