سوشل میڈیا کےتوسط سے افغان اورانڈونیشن کی ریپ سےمتاثرخواتین کی مدد:

Posted on at

This post is also available in:

 

انڈونیشیاء Indonesia دنیا کاچوتھا بڑاگنجان آباد ملک ہےـ 238 لوگ Archipelago مجمع الجزائرمیں بستےہےجوکہ 17،000 جزویروں کامجموعہ ہےجس کودوسری جنگ عظیم کےبعد آزادی ملی ـ ان علاقوں کےچند مقامات میرے ذہین مین نہایت دلکش اوردلفریب مناظرلاتےہےـ جیساکہ سماٹرا میں ٹوبہ جھیل Lake Toba Borneo جزیرے کی جنگلی حیات، سکوبا Scuba خوطہ خوروں کاجزیرہ Sulawesi جاوا اوربانی کےساحلوں پر diving

 

 

انڈونیشن کلچر کئی دیگر ممالک کی طرح اپنے خواتین کی ترقی کی حوصلہ شکنی کرتی ہےـ ان کوبیوی اورماوں کے کردار تک ہی محصورکیاگیاہےـ مگر گزشتہ کئی دہائیوں سے اس رحجان میں تبدیلی آرہی ہےاور اب دیہات سےعورتوں نےروزگارکی غرض سےشہروں کارخ کرنا شروع کیاہےـ مگربدقسمتی سےاس کی وجہ سےریپ کےمتاثرین میں بھی number اضافہ ہواہےـ

 

گزشتہ جنوری میں ایک جج نےبیان دیا جس سےشدید ردعمل دیکھنے کوملا Daming Sanusi  انڈونیشن سپریم کورٹ کےجج a judge made a comment that triggered outrage all over the nation ہے جنہوں نےیہ کہا ریپ متاثرین بھی اپنی بےحرمتی سے لطف انداوز ہوتےہےـ جب کسی نےریپ کےمجرموں کوسزائے موت دینے کےحوالےسے سوال application کیاتواس نےکہا کہ اس میں اختیاط برتنی چاہیے کیونکہ اس میں دونوں فرد اس فعل سےمحفوظ ہوتےہےـ اس نےاس بات کی طرف اشارہ کیاکیونکہ ریپ کےمتاثرین بھی خود موردالزام ہوتےہیں اس لیئے وہ بھی اس فعل کوضرورانجوائے کرتےہونگےـ پوری دنیا نےاس بیان پرشدید غم وغصہ کا اظہارکیا اورانصاف کےلئے آوازاٹھائی ـ

انڈونیشن حکومت نے اس ضمن میں کئی اقدامات اٹھائے مگر اب بھی حقوق تلافی کےلیے مزید اقدامات کی ضرورت ہےـ اب بھی آذیت کا طریقہ کئی صوبوں میں رائج ہےـ اب بھی caning (جھڑی) کااستمعال کیاجاتاہےـ اور اقلیتوں کےحقوق کی پامالی اب بھی ہوتی ہےـ فی میل ختنہ Female circumcision اب بھی جاری ہےـ جب ریپ کے کیسز اب بھی دیکھنے کوملتےہےـ دن بدن ان ریپ متاثرین میں اضافہ ہورہاہےـ سوشل میڈیا نےان متاثرین کواوازمہیاکررکھی ہےـ اب سوشل میڈیا کی بدولت ان مجرموں کوآسانی کے ساتھ بےنقاب کیاجاسکتاہےـ افغان خواتین بھی اس قسم کےمشکلات سےدوچارہےـ

ان جگہوں پرجہاں حکومتی عملداری قائم نہیں وہاں خواتین کے اعضاء کی بےحرمتی عام ہےـ زبردستی کی شادی اورگھریلوں تشدد افغانستان میں بہت عام ہےـ اس کےعلاوہ لڑکیوں کو جرگوں اوربرایئوں کے حل میں قربانی کا بکرا بناہ دیاجاتاہےـ لیکن افسوس کےساتھ یہ کہنا پڑتاہے کہ یہ سب دنیا کے آنکھوں کے سامنےہورہاہوتاہے مگر اس کے حل کے لیے مناسب اقدامات نہیں اٹھائے گئےـ اس کے نتیجے میں ریپ کے متاثرین میں بتدریج اضافہ ہورہاہے اور انکے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتاـ ریپ ایک انتہائی سنگین جرم ہے اوراس کی اسی شدت میں سزا متعین ہونی چاہیےـ اس میں متاثرین کے جسم اورنفسیات پرگہرے زخم کا باعث ہوتے ہےـ یہی نہیں ریپ کے متاثرین کومعاشرے میں نچ نگاہ سےدیکھاجاتاہےـ جس کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرین بن جاتی ہےـ شادی کے بندھن میں ان کےلئے ناممکن بن جاتاہےـ اپنے لئے کھڑاہونا اورمجرم کے خلاف آواز اٹھانا ان کی زندگی اجیرین بنادیتی ہےـ یہی حالات کئی لڑکیوں اورعورتوں کوخودکشی پرمجبور کردیتی ہےـ

انڈونیشیاء کی طرح افغانستان کی خواتین بھی سوشل میڈیا کےذریعے اپنی اواز دنیا تک پہنجاسکتی ہےـ ایک عورت کی کہانی ہزاروں خواتین کوجگانےکے لیئے کافی ہےWomen's Annex  ڈیجٹل پلیٹ فارم ہے جس کو Film Annex نے لانچ کیاہواہو جوکہ افغان خواتین کومعاشرتی ناانصافی کےخلاف آواز اٹھانے کےلیے پلٹ فارم مہیا کئیے ہوئے ہےـ یہ تیزی سے مقبولیت حاصل کرتاہواسائٹ افغان خواتین کوبا اختیاربنانے کےلئے کوشاں ہےـ اپنی اذیت سےمتعلق کہانی کوشیئر کرنے سے نہ صرف مجرموں کامحاسبہ ممکن ہوسکے گا بلکہ دوسری خواتین جس کوان حالات کا سامنا ہےکوبھی حوصلہ مل سکےگاـ جب ایک خاتون سب کےسامنے اپنے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے بےنقاب کریگی تودوسری خواتین کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی ـ Women Annex اس قسم کے واقعات سےمتعلق پلیٹ فارم مہیا کرتاہے اورلکھنے والوں کو مالی فوائد سےبھی نوازاجاتاہےـ امید ہے کہ Daming Sanusi جیسے کلمات کی بھرپور مزمت کی جائی گی تاکہ ان جیسے معاشروں میں بہتری آسکےـ

Giacomo Cresti

http://www.filmannex.com/webtv/giacomo

follow me @giacomocresti76

انڈونیشیاء Indonesia دنیا کاچوتھا بڑاگنجان آباد ملک ہےـ 238 لوگ Archipelago مجمع الجزائرمیں بستےہےجوکہ 17،000 جزویروں کامجموعہ ہےجس کودوسری جنگ عظیم کےبعد آزادی ملی ـ ان علاقوں کےچند مقامات میرے ذہین مین نہایت دلکش اوردلفریب مناظرلاتےہےـ جیساکہ سماٹرا میں ٹوبہ جھیل Lake Toba Borneo جزیرے کی جنگلی حیات، سکوبا Scuba خوطہ خوروں کاجزیرہ Sulawesi جاوا اوربانی کےساحلوں پر diving



About the author

AFSalehi

A F Salehi graduated from Political Science department of International Relation Kateb University Kabul Afghanistan and has about more than 8 years of experience working in UN projects and Other International Organization Currently He is preparing for Master degree in one Swedish University.

Subscribe 0
160