حصہ دوم: افغانستان میں ایک افغان نوجوان، اُس کا موبائیل، سوشل میڈیا اور فلم بنانا۔

Posted on at

This post is also available in:

 

تعارف:-  یہ محمد ساجد ارغندایوال کے ساتھ دو حصوں والی ملاقات کا دوسرا حصہ ہے۔ کابل سے دستاویزی فلم بنانے والا، شاعر اور آمن چاہنے والا ایک نوجوان ہے۔ ساجد سے  پہلے ملاقات میں ھم نے یہ سیکھا کہ کسطرح یہ 19 سالہ افغان نوجوان اپنے نظریوں جیساکہ ایک موبائیل فون اور ایک مضبوط خواہش افغانستان میں آمن بننے کے سبب میں مدد دیں سے اپنا چھوٹا سفر شروع کیا۔  

ممکن ہے تو اس رابطے کو کسطرح بڑھائی جاسکتی ہے؟

کچھ لوگ آمن اور ترقی کے بات کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ آمن اور ترقی کیلے عملی کام کرتے ہیں۔ ساجد دونوں کرتے ہیں۔ اُسکا جدوجہد ایک مشہور افغان محاورے کو دماغ میں لاتے ہے" نیکی کن بہ دریا بی انداز"۔

 اس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو اور اسے دریا میں پھینکو۔ یہ محاورہ ایک فارسی افسانہ نگار نے ایک آدمی کے متعلق کہا ہے۔ وہ آدمی بنا کسی انعام کے توقع اچھے اچھے کام کرتا تھا لیکن آخر میں بہت سے اچھے چیزیں ان کو بھی ملی۔

نیکی کن به دریا بینداز 

محمد ساجد یہاں دوبارہ امریکہ کے نیوی کیپٹن "زربُل مسالہ 151 افغان دری محاورے" اور"افغان فرورب الوسٹریٹڈ" کے مصنف ایڈورڈ زیلم کے ساتھ کہتے ہیں۔

 فلم انیکس: ساجد آپکے ساتھ دوبارہ بات کرکے بھت اچھا ہوا۔  ہمارے پہلے ملاقات میں اپ نے وی ایس او(وولنٹری سروس اوورسیزVSO/) کیساتھ اپنا کام کرنے کے بارے میں کہا تھا۔ کیا سرحدوں کے آرپار رابطہ نوجوانوں کے درمیان وسطی اور جنوبی ایشیا میں آمن قائم کرنے میں مدد دےسکتا ہے؟ اگر ایسا 

 

محمد ساجد ارغندایوال: دگروال/کیپٹن آپ کے ساتھ بات کر کے بھت زیادہ اچھا ہوا۔ ایک اور مشہور افغانی محاورہ کہتی ہے "از گپ گپ می خیزد"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھی گفتگو، گفتگو کواور زیادہ اچھا بنا لیتا ہے۔

 میں اب بھی تاجکستان میں وی ایس او VSO  کے ساتھ کام کررہا ہوں۔ میں پچھلے ڈھائی مہینوں سے ادھررہا اورکابل جانے سے پہلے مزید دو ہفتوں کیلے یہاں رہونگا۔ میرا وی ایس او VSO  منصوبہ افغانستان، برطانیہ اور تاجکستان سے 18 اور 25 سال عمر کے درمیان رضاکارانہ نوجوانوں کو اکٹھا کرتے ہے۔ ھم تاجکستانی خواتین کے نوزائدہ دس کاروباروں کے ترقی میں مدد کرنے کیلے گروپوں میں کام کررہے ہیں۔ میرے لیے لوگوں کی مدد کرنا ، افغانستان کو ظاہر کرنا اور مختلف ثقافت جاننے کا ایک بڑا موقع ہے۔

تاجکستان میں وی ایس او VSO کے ساتھ ساجد ارغندایوال کےایک سکول کی سیر۔

 مستقبل کیلۓ وسطی اور جنوبی ایشیا کے خواتین کا اختیارمند ہونا ضروری ہے اور خاص طورپراس لۓ میں خوش ہو کہ تاجکستان میں خواتین انٹرپرینورزکے مدد کرنے کا قابل بنا۔  اسکےعلاوہ میں نے بھت سے نۓ دوستوں کوپایا اور جیتا ہیں۔  ھم سب سارے دنیا میں آمن پھیلانا چاھتے ہیں۔ ھم پہلے سے ایسے منصوبے تیارکررہے ہیں کہ مستقبل میں ایک ساتھ مختلف پراجکٹس میں کام کرکے لوگوں کے مدد کریں اور ہرجگہ آمن کو سہارا دینے کا سبب بنے۔

 وسطی اور جنوبی ایشیاء کے ممالک کے درمیان مخلوط ثقافتی رابطے اور ترسیل افغانستان کے آمن میں مدد کرسکتے ہیں۔ جب مختلف ثقافتوں سے نوجوان ایک دوسرے کیساتھ رابطے میں رہیں تو وہ ایک دوسرے کیلۓ باھمی سمجھ اور ھمدردی کو ترقی دے سکتےہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ سب انسان ہے اورانکے بنیادی خیالات اور احساسات ایک جیسے ہیں۔ 

 

 

   میرے سوچ کیمطابق اسی قسم کا تجربہ مخلوط ثقافت کی تخلیق سے بڑائی جاسکتی ہے جہاں تمام خطے کے لوگ مناسب موزوں پر بات کرے اور آمن کو ترقی دیں سکے۔ اس کاایک طریقہ ان لائن ہے۔ یہ سفر ھمارے لۓ سخت اور مھنگا پڑسکتاہے لیکن ھم میں سے زیادہ اینٹرنیٹ اور سوشل میڈیا، ویب سائٹس اور فیس بک کے استعمال سے اپنے گھروں یا کلاس رومز سے سارے دنیا کا سفر کرسکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سفرکے انتظامات یا مشاورات بنایے جاے جہاں اعلیٰ سوچ والے رھنما آمن اور سمجھ کے موزوں پر بات کریں اور پھر نوجوانوں کو اُس کے پیروی کرنے کے مواقع فراہم کریں۔ قومی رھنماووں کو ذاتی طورپرزیادہ ضرورت ہیں کہ وہ اپنے معاشرے اور ان کے لوگوں کیساتھ ملے ہو۔ اُنہیں خطے میں نوجوانوں کیساتھ ضرور ملاپ ہو تاکہ مشترکہ مقاصد اور ترقی کو حاصل کریں جو ہر کسی کیلۓ فائدہ مند ہیں۔ 

 

FA: افغانستان میں ابھی بھی بھت سے لوگ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک باقاعدگی سےرسائی نہیں لیکن روزبروز اس کے تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ جیسا کہ آپ نے اپنے پہلے انٹرویو میں کہا تھا کہ موبائل فونز عام ہیں، ٹویٹر اور فوری پیغام رسانی کی فون کے اوزار مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ کس طرح فلم، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی تعلیم افغانستان میں عورتوں اور نوجوانوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے؟

  

MSA فلم افغانستان میں لوگوں کی زندگیوں میں ایک بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے. یہ خاص طور پر دستاویزی فلموں کے لئے سچ ہے کہ وہ افغانستان میں عورتوں اور نوجوانوں کے زندگیوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرنے میں مدد دے سکتاہے۔ عظیم افغان فلم سٹار، فلم ساز اورفھیلنتھرپیسٹ philanthropist لینا عالم Leena Alam نے فلم انیکس کے ساتھ  اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ بدقسمتی سے افغانستان میں ناخواندہ لوگ بہت زیادہ ہے جن کا ابھی تک انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی نہیں ہوئی ہے۔ پس فلموں اور ٹیلی ویژن کے ذریعے وہ اپنے روزانہ کے تجربات کے باہر مختلف چیزوں کے بارے میں سیکھ سکتے ہیں۔

 میں سچ میں آمن اور ترقی کے لئے سوشل میڈیا کے مثبت فوائد پر یقین رکھتاہوں۔ میں ائندہ قریب میں سوشل میڈیا کے فوائد اور کسطرح فیس بک نے میرے زندگی تبدیل کردیا پر ایک مضمون لکھوں گا۔ جیساکہ میں نے آپنےآخری انٹرویو میں بتایا کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے میں نے بھت مثبت چیزیں حاصل کی۔ 

سوشل میڈیا کے ذریعے میں نے دنیابھر سے اچھے دوست پالیں ، نۓ ہنرزسیکھ لیۓ اور فاکس پاپولی Pax Populi تنظیم کیلے ایک مضمون لکھا ہے۔  اُس مخصوص مضمون کو دنیا بھر سے تیس ہزار رجسٹرڈ ممبران کے ساتھ آمن اور کولبوریٹیو ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک Collaborative Development Network پر پھرایا گیا تھا۔  سوشل میڈیا سے بھی مجھ کو افغان وائسز Afghan Voices ، بچوں کے مہربانی و دلجوئی بچوں کیلۓ، نینسی ڈوپری Nancy Dupree کی ایکوا ACKU اور وی ایس او VSO منصوبہ جس پر میں اب تاجکستان میں کام کررہاہوں تلاش کرنے میں مدد ملی۔

 فلم انیکس کی طرح دیگر اہم آن لائن نیٹ ورک خواتین کے انیکس Women’s Annex دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مندرجہ ذیل ہے. وہ سب کے سب عظیم، آمن کی وجوہات کے لئے ، ترقی، خواتین کو بااختیار بنانے، اور دیگر اہم کام کر رہے ہیں۔

 

            

  TIME "Top 100" Roya Mahboob's Afghan Development Project                          Women’s Annex

 

  

ٹائم"ٹاپ 100" رویا محبوب کی افغان ڈویلپمنٹ پراجیکٹ  Women’s Annex

 

افغانستان میں لوگوں کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ یہ روز مرہ کی زندگی پر مثبت آثرات مرتب کر سکتے ہیں. انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نوجوانوں اور خاص طور پر افغان خواتین کے لئے ان کے آواز بلند کرنے کے لئے بہترین آلات میں سے ہیں۔ وہ دنیا کو دکھاسکتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے بارے میں شعور بڑھا سکتے ہیں۔ اگر آپ کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے اور فیس بک، ٹویٹر یا کسی دوسرے سوشل میڈیا پر آپکے اکاؤنٹس ہیں تو سارا دنیا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ آپ اس کے ذریعے بہت سی ہی چیزیں تبدیل کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا سب کو برابر بنا دیتا ہے۔ ایک عام شخص کا ایک ہی اکاؤنٹ یا صفحہ ہوتاہےجوکہ ایک صدر کا بھی ہوتا ہے اور اس کے قوانین سب کے لئے ایک جیسے ہیں۔

 

FA: آپ شروع ایک دستاویزی فلم سازی سے کررہے ہے اور کئی مختصر فلمیں ابھی پروڈکیشن میں ہیں۔ آپ کو ایک افغان ہیرو کے بارے میں ایک فلم بنانا تھا تم کونسےتین بہترین پرغور کرے گے، اور کیوں؟

 

                                                                                                                 Shabana Basij-Rasikh

:MSA افغانستان میں کئی ہیرو ہیں جس کے بارے میں میں فلمیں بنانا چاہتاہوں۔ ہروہ شخص جو افغانستان اور اس کے لوگوں کے لئے کچھ کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہے وہ میرے لئے ایک ہیرو ہے۔ اگرمجھے تین فلمیں منتخب کرنے ہیں  تومیں ایک فلم ایک خاتون ہیرو کے بارے میں بنانا پسند کروں گا جس سے میں کبھی ملا نہیں ہوں لیکن میں نے اس کے بارے میں بھت کچھ سنا اور پڑھا ہے۔ دو اور ذاتی ہیرو ہیں جن کو میں جانتا ہوں اور اُن کے ساتھ کام کیا ہے۔  تینوں افغانستان کے لئے بہت مثبت کام کر رہے ہیں اور میں ان کے بہت تعریف کرتا ہوں۔ میرے ٹاپ تین یہاں ہیں۔

 

Shabana Basij-Rasikh شبانہ باسج راسیخ  

   سب سے پہلے، شبانہ باسج راسیخ۔ میں ان سے کبھی نہیں ملا، لیکن واقعی میں اس کا احترام کرتا ہوں اگر میں کرسکوں تو اُس پر ایک فلم بناناچاہتاہوں۔ وہ افغانستان میں سکول آف لیڈرشیپ ان افغانستان سولا(SOLA) the School of Leadership in Afghanistan کے شریک بانی ہے۔  وہ صرف 22 سال کی ایک بہت تخلیقی لڑکی ہے جو افغانستان میں خواتین کے تعلیم کے لئے کوشش کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  اُس نے سولا SOLA کی بنیاد رکھی۔ بہت سے نوجوان لڑکیاں جو افغانستان کے مستقبل کے رہنما ہو جائیں گے اُنہوں نے اس سکول کے ذریعے اور شبانہ باسج راسخ کے کام کے ذریعے وظائف وصول کی ہوئیں ہیں۔ اگر اس نے یہ پڑھا ہے تومیں اس انٹرویو کے ذریعے اس کو بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے تمام افغانیوں کی جانب سے اس پر فخر ہے۔  وہ صرف پیروں کاروں کو پیدا نہیں کر رہی ہے جو ایک نوجوان رہنما کے طور پر دوسری عورتوں کے لئے امید فراہم کرتا ہے - وہ اپنے آپ کی طرح بہت سے دیگر رہنما تخلیق کر رہی ہے۔

 

 

    دوسرا ڈاکٹر نجیب شریفی Dr. Najib Sharifi ۔ وہ افغانستان کے نئے نسل کی تنظیم Afghanistan’s New Generation Organization کے ڈائریکٹر ہیں جو افغان وائسس Afghan Voices جیسے کئے پروگرام چلاتے ہے اُس کے ذریعے نوجوان افغانیوں کو فلم میں تربیت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ افغان صحافیوں کی سیفٹی کمیٹی Afghan Journalists’ Safety Committee جو افغان صحافیوں اور آمن کے کارکنوں کے ایک نیٹ ورک ہے اور افغانستان میں کام کرنے والے افغان میڈیا کے کارکنوں اور بین الاقوامی نامہ نگاروں کی حفاظت اور تحفظ کو یقینی بنانے کا بھی ضآمن ہے۔ وہ سرکی اول Sarak-e-Awal ایک ادارہ ہے جو کابل میں بچوں کو تعلیم، کھانا، اور کفالت فراہم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ڈاکٹر نجیب اس پراعتماد کرتے ہے کہ افغانستان میں نوجوان نئے نسل مثبت تبدیلی لانے کے لئے ایک ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔ اس کا مقصد افغانیوں کا مدد کرنا  اورخاص طور پر نوجوانوں کا تاکہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاۓ

 

تیسری عمر احراری Omar Ehrari ، بچوں کے لئے Country Director of Solace for the Children ڈائریکٹر ہے۔  اُس کا غیر منافع بخش تنظیم کا جنگ زدہ ممالک کے بچوں کے لئے طبی دیکھ بھال، تعلیم اور قیادت کی ترقی کے فراہمی کے ذریعے صحت کی بنیاد پر قیام آمن کیلۓ کام ہے۔ بچوں کے دلجوئی کیلۓ افغانی بہت کچھ کرتے ہیں خاص طور پربیماربچوں کیلۓ اور حتٰی کہ بعض اوقات اس کے قابل ہوجاتے ہیں کہ انہیں ضروری علاج کیلۓ بیرون ممالک بیجھتے ہیں. عمر آمن پر یقین رکھتا ہےاور آمن بنانے والا ہے اور اس کے ساتھ اُس کے افغانستان میں مثبت تبدیلی لانے کے بڑے امیدیں اور مقاصد ہیں۔  اور وہ صرف اس کے بارے میں بات نہیں کرتا کہ وہ واقع میں چیزوں کو بناتا ہے۔ میں نے دلجوئی کیساتھ رضاکارانہ طورپر بچوں کیلۓ آمن کے ساتھ کام کیا ہے  بیمار بچوں کے خاندان کے ارکان کو انٹرویو اور ان کے طبی کویسچن ائیرز کو بھرنے میں مدد کی۔ جب میں واپس افغانستان چلوں تو میں آمن کے دلجوئی کے لئے ایک رضاکار کے طور پر کام کروں گا اور وہاں بھی زیادہ ذمہ داری لوں گا۔ عمر میرے لئے ایک ہیرو سے زیادہ ہے وہ ایک بھائی کی طرح ہے۔

 

یہ میری فہرست میں سب سے اونچی درجی پر تین ہیرو ہیں جو کسی ترتیب میں نہیں ہیں. ایک دن میں ان سب کے بارے میں دستاویزی فلمیں بنادوں گا۔

 آپ آپنے ملک کے مستقبل کے لئے کیا چاہتے ہیں؟

 : MSA میں اپنے ملک کیلۓ وہ چاہتا ہوں جو ہر عام افغان چاہتا ہے۔ آمن، مساوات، سیکورٹی اور تعلیم. یہ وہی چیزیں ہیں جو دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی عام انسان چاہتاہےـ

میں افغانستان میں ایک آمن بنانے والا ہوں اور ہمیشہ اس کے لئے جدوجہد کروں گا جوآب سب سے بڑی ضرورت ہے۔  جو اپنے ملک میں افغان مردوں اور عورتوں کے لئے مزید تعلیم کے مواقع اور خواندگی، ترقی، آمن اور سلامتی کی چابیاں ہیں۔ اگر نئے افغانی نسل بہتر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ یہ سمجھ جائیں گے کہ آمن کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور آمن کے علاوہ کوئی بھی چیز اچھا نہیں ہوسکتا۔

    

    

افغانستان ایک اسلامی ملک ہے، لیکن ہمارے کچھ کم تعلیم یافتہ لوگ مکمل طور پر اسلامی قوانین اور مطالعہ سےواقف نہیں ہے۔ وہ اسلام کے نام کو استعمال کرکے بہت غلط کام کرتے ہیں جیسا کہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سےروکنا، ان کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت نہ دینا اور خواتین کے خلاف تشدد ہیں۔ یہ سب مکمل طور پر اسلام کے خلاف کر رہے ہیں۔  حقیقت میں میں آمن کے ساتھ مساوات کوبھی دیکھنا چاہتا ہوں ـ تمام مرد اورخواتین کو تعلیم، کام اور باہمی احترام اور مساوات کے ساتھ مل کر اپنی کمیونٹیز کی ترقی کیلئے کام کرنا چاہئے۔

  مجھے افغانی ہونے پر فخر ہے، اور مجھے میری ماں کے طور پر افغانستان کے بارے میں سوچنا ہے۔ ہماری سب سے زیادہ مشہور افغانی محاورہ جوکہتا ہے کہ "بیہشت زیری پاے مادر است "جس کا ترجمہ ہے " ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت ہے"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی نظر میں ماؤں کا دنیا میں ایک بہت اہم کردار ہے۔

 میرا ملک میری ماں ہے اور میں اپنی زندگی کی آخری سانس تک افغانستان کے لئے کام کروں گا کیونکہ یہ مجھے پر واجب الادا ہے۔

 محمد ساجد ارغندایوال کے ساتھ فلم انیکس کے خصوصی انٹرویو کا ایک حصہ یہاں پایا جا سکتا ہے۔

  ایڈورڈ زیلم کی طرف سے فلم انیکس کے اہم رہنماؤں کےمزید انٹرویوز انیکس پریس پر دیکھیں 

-----

 

Part One of Film Annex's exclusive interview with Mohammad Sajid Arghandaiwal can be found here.  

Look for more interviews of key thought leaders by Edward Zellem on Film Annex’s The Annex Press.



About the author

HayatullahSalarzai

Hayatullah Salarzai Finished MBA on Pakistan and now working Afghan citadel as translator he is looking to apply for PHD in one of the international universities very soon.

Subscribe 0
160