افغانی لڑکیاں ہماری سٹوڈنٹس کو ایک قابل قدر سبق پڑھا رہی ہے

Posted on at

This post is also available in:

وقت بدلتا ہے اور یہ صرف ایک کہاوت ہے۔ آج کل میں ایک سکول میں پڑھا رہی ہوں۔ لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں استانی کی ڈسک کی دوسری طرف بیٹھا کرتی تھی۔ یہ ایک مختلف دنیا تھی۔ مجھے اپنی استانی کی خوف اور عزت کی ملی جلی احساسات کا تجربہ یاد ہے۔ اور اُنہیں کسی گوستاخی لہجے سے جوان  کا حق نہیں تھا۔ جب میں اُن گزری ہوئے سالوں کو دیکھتی ہوں تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمیں ان کی خیالات سے غیر متفق ہونے کی اجازت تھی۔ میں وہ مقابلہ والی گفتگو دوبارہ یاد کرتی ہوں،جس میں دونوں طرف ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتے لیکن ایک دوسرے کی بےعزتی نہیں کرتے۔

 آخر میں اپنے نظرئے کی عقیدے کی حمایت میں ہماری حوصلہ افزائی ہوتی۔ اور ہم سمجھتے تھے کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہونا پسند نہیں لیکن ہمیں ایک دوسرے کی عزت کرنی تھی اور گوستخانہ لہجوں کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس رشتے کا کیا ہوگا؟

 میں سکول کی کام سے زیادہ جوڈو کی مشق کرتی ہوں۔ تا ہم ہر روز سکول کا بہت زیادہ کام گھر کی لیے دیا جاتا۔ اور مجھے یاد ہے میں جو چاہتی تھی مجھے اُسے پانے کے لیے بہت قربانی دینی پڑتی۔ میں اپنی آنکھیں اُن نہ ختم ہونے والے شاموں اور راتوں میں بمشکل کھولی رکھتی تا کہ میں وہ کتابیں پڑھوں جس سے میں نفرت کرتی تھی۔ ان دنوں میں کام مقررہ مدت تک مکمل نہ کر پاتی۔ اور میں محسوس کرتی کہ سکول قریب ہونے کی ہر قدم سے میری دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات میری پریشانیاں مجھے مجبور کرتی کہ میں سکول چھوڑ دوں۔ گھر کے لیے دیئے ہوئے سکول کا کام نہ کرنے کی جماعت میں بیٹھنا میرا مقصد نہیں تھا۔ اُن دنوں اسکا انجام بہت خراب تھا۔

اور آخر کار گھر کے لیے دیئے ہوئے کام کے مسلسل نہ کرنے سے ایک جماعت میں ناکام ہوگئی۔ جون کے آخر میں مجھے اُس فیل کیمسٹری کوفائنل امتحان میں پاس کرنے لے لیے پوری کتاب پڑھاتا تا کہ ستمبر کے آغاز میں اُسکو پاس کرسکوں۔ اگر میں پھر اُس میں ناکام ہوجاتی تو مجھے پورا سال پھر وہی جماعت دُہرانا پڑتی۔ ہاں اُس نظم وضبط کو کیا ہوگیا؟

اگر میں اپنے والدین کی ہمدردی اور حمایت کی انتظار کر رہی ہوں تو میں ابھی تک کرتی۔ اُن کے سکول کے دن انھوں نے مجھ سے زیادہ سخت گزارے ہے۔ ہم اُس وقت کے بارے میں بات کررہے ہیں جس میں شریرطالبعلموں کو پیمانوں سے سزا دی جاتی تھی۔ اور اُن کو جماعت کے کونوں میں مرغی بنائی جاتی۔ پس وقت کی کمی کی وجہ سے انتظامی مہارتیں پوری کرنا ممکن نہیں۔ جب تک میرے اساتذہ مجھے سزا دیتے وہ ہمیشہ اُن کی طرف لیتے۔ والدین اور اساتذہ کے درمیان اعتماد کو کیا ہوگیا؟

میں بے اُصول حاکمانہ کنٹرول کی حامی نھیں ہوں لیکن جس سکول میں نظم وضبط نہ ہو وہ بے مقصد ہے۔ اور بلا خوف کے عزت نظم وضبط مزاق ہے اور بد قسمتی سے آج ہمارے زیادہ تر سکولوں میں یہ نظام ہے۔ آج کل طلبہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نہ قابل قبول انداز میں اساتذہ سے بات کرسکتے ہیں۔ اور سالوں پہلے اس میں اختلاف کی گنجائش تھی۔ اور طالبعلموں کو اپنے حمایت پہ حوصلہ فزائی کرنی چاہیے۔ لیکن وہ اکثر اسکا انتخاب غیر موزوں طریقے سےکرتے ہیں۔ وہ اُن کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جب اُن کو سسنا چاہیئے وہ اکثر بے ادبی سے پیش آتے ہیں۔ اور محزب طریقے سے گفتگو کو نظر اندازکرتے ہیں۔ وہ گھر کے لیے دیئے جانے والے سکول کے کام کو اہمیت نہیں دیتےاور جب وقت پر یہ کام نہ کرنے کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ ایسا رویہ اپناتے ہیں۔ جیساں کہ اُنھیں کوئی پریشانی نہیں علاوہ ازیں کیا ہوا ہے جب اساتذہ انکی چھٹی کرادیتےہیں۔

بد قسمتی سے وہ تعاون کے بجائے موغاتی دنیا اور جارہانہ رویہ اپناتے ہیں۔ آج کل بہت سے بچے اپنی بقاء کے لیے سکول جاتے ہیں۔ لیکن وہ محسوس نہیں کرتے کہ وہ کتنے خوش قسمت ہیں اور وہ کتنے مواقع ضائع کر رہے ہیں۔ اُن کو مشکور ہونا چاہئے جو اُنکو دیا جارہا ہے۔ بجائے اسکے وہ ظاہر کرتے ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنا نہیں چاہتے ہم یہاں کیسے داخل ہوئے۔



اہمیت نتائج کی کمی۔ اگر ہماری پاس اپنی طالبعلموں کے چال چلن کا جواب ہونے کے لیے ایک عمدہ نظام نہیں، تو ہمیں اس بغاوت پہ حیران نہیں ہونا چاہیئے۔ سکول وقت کے بعد دیر سے روکنے کے کیا نتائج ہے؟جو سکول کا کام گھر کے لیے دیا جاتا ہے بہت سے طالبعلموں پر بھی وہ کرنا روک دیتے ہیں۔ سکول میں دوپہر کا کھانا ایک مذاق  ہوتا ہے جیسا کہ جب باہر سردی ہوتی ہے تو بہت سے طالبعلم اندر رہنا پسند کرتے ہیں۔ عام طور پر اُنکی پوزیشن کی کمی ان کو پریشان کرنے کی بہت معمولی بات ہے۔ طلبہ کو اُن کی کھیل کے ٹیم سے باہر کرنا ایک بڑی نگاوت ہے۔ انکی والدین کو اساتذہ کی طرف سےفن طلبہ سے زیادہ اساتذہ کے لیے بڑی الجھن اور بڑی مصیبت بن سکتی ہے۔ اور پرنسپل کی دفتر لے جانا کیسا ہے؟ اب حقیقتً ہاتھ پر تھپڑ ایک دوستانہ مذاق ہے۔

 حق دینے کی یہ حس کہاں سے آگئی؟ کیا بچے اپنے والدین سے بھی بد تمیزی سے پیش آتے ہیں؟ جب میں لڑکا تھا اور میں اپنے والدین کی گوستاخی کرتا تو میں اُنکی اختتام کبھی نہیں دے سکتا۔ میں ایک نو عمر جو اپنے والدین سے کسی بھی قسم کی امیدیں نہیں رکھتا تھا۔ سوائے کھانے اور پینے کے۔ وہ مجھے دبائے رکھتے اور میں تفریح کے لیے اپنا موبائل فون،کمپیوٹر،ٹی وی حتی کہ ریڈیو بھی استعمال کرسکتا تھا۔

 

 

میں اپنے  صورت حال کو اُن ممالک سے نسبت نہیں دے سکتا جہاں کیٹ میں کام کرنے کی بجائے تعلیم کو بنیادی دیکھا اور محسوس کیا جاتا ہے۔ افغانستان کے اُن علیحدہ علاقوں کے دیہاتون میں اب بھی ان لڑکیوں کو مار دیا جاتا ہےجو  سکول جانے کی کوشش کرتی ہیں یا اُنکی چہروں پر تیزاب پھینکا جاتا ہے ۔ ان کی پینے کی پانی کو آلودہ کردیا جاتا ہے، انکی سکولوں کو جلا دیا جاتا ہے۔ ابھی بھی افغانی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کی حق کے لیے لڑتی ہیں کیونکہ وہ اس کو اس طریقے کو مواقع سمجھتے ہیں جو وہ اپنے زندگیوں میں کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ طالبان تحریک اسکو بند کرنا چاہتے ہیں تو وہ اسکو افغانستان کے عورتوں کے حقوق کے لیے اور بھی آگے بڑھا رہے ہیں۔ افغانستان میں عورتوں کو صرف تشدد،زبردستی شادی اور عزت کے نام پر قتل کے لیے سمجھا جاتا ہے۔ اور تعلیم ان کی سب سے بااثر لڑنے والے ھتیار ہے۔ پچھلے  12 سالوں میں جیساکہ مقامی دستی نے ملک کا کنٹرول کھو دیا ہے۔تو افغانی عورتوں کی تعلیم میں آہستہ سے اضافہ ہوگیا ہے۔ اور آج کل بہت سی شہری عورتیں اسکا فائدہ لے کے سکول جاتی ہیں۔ اور پھر خود اساتذہ بھی بن جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ بیرونی ادارے تیزی سے افغانستان کے تعلیم نظام میں مدد کررہی ہیں۔ اور یہ فلم انیکس کی کیس ہے یہاں ایک کمپنی ہےجوملک کے تیسرے بڑے شہر ھرات میں انٹرنیٹ سیکھانا شروع کر رہی ہیں۔ افغانستان کی تعلیم اور اقتصادی ترقی کے لیے انہیں ایک دوسرے پہ  انحصار ہونے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے اگے مستقبل کا حصہ یہ جواس نسل کی یہ افغانی عورتیں بن جائیگی  جو میسر موقعوں کو صحیح طرح سے استعمال کرنا جانتی ہیں۔ اور تجربہ کاروں سے فاہدہ حاصل کرنے کی محنت کرتی ہیں اور اپنے کمرہ جماعتوں میں خوش رہتی ہیں  ہمارے آج کل کے بچے نہیں جانتے کہ اُنھیں کتنی حقوق حاصل ہیں۔ بہت سے ایسا سوچتے ہیں کہ انہیں سب کچھ  آتا ہے اور امید رکھتے ہیں کہ سب ویسا ہوگا جیسا وہ چاہتے ہیں تا ہم ایک دن انھیں محسوس ہو جائے گاکہ وہ اپنے حقوق وفرائض کے بارے میں کتنی غیر حقیقت پسند تھے۔ میں صرف یہ امید رکھ سکتا ہوں کہ وہ اپنے خاطر اپنے آنکھیں کھول لیں گے۔ اور جلد یہ بعد میں انھیں پتا چل جائے گا کہ وہ جسکے مستحق تھے وہ انھیں نہیں دیا گیا۔  

Giacomo Cresti

http://www.filmannex.com/webtv/giacomo

follow me @ @giacomocresti76



About the author

AFSalehi

A F Salehi graduated from Political Science department of International Relation Kateb University Kabul Afghanistan and has about more than 8 years of experience working in UN projects and Other International Organization Currently He is preparing for Master degree in one Swedish University.

Subscribe 0
160