علامہ ڈاکٹر محمد اقبال

Posted on at


ء1905 میں اقبالؔ جب یورپ گئے تو کیمبرج میں پروفیسر میک ٹیگرٹ اور جیمس وارڈ کی نگرانی میں رومی، نطشے ،فطشے اور برگساں کے عقائد پر گہری نظر ڈالی تو آپ کو محسوس ہوا کہ ان مغربی مفکرین کے چند بنیادی خیالات رومیؒ کے تصورات سے بڑی حد تک ملتے جلتے ہیں ۔ نطشے بھی رومی کی طرح ارتقا ، آزادی ، خودی کی ترقی کے امکانات ، ارادہ کی عظمت اور تعمیر کے لئے تخریب کو اہم تصور کرتا ہے جبکہ برگساں حرکت کو حقیقت اور وجدان کو علم کا منبہ قرارد یتے ہوئے رومی سے متفق نظر آتا ہے ۔اقبالؔ نے اپنے اس وسیع مطالعے کے تناظر میں فلسفہ خودی کی بنیاد رکھی۔ اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے تین مناسب ہوتے ہیں۔ ایک تو ماحول سے کشمکش کرنا ، دوسرے مستقل تناؤ کی حالت کو برقرار رکھنا اور تیسرے مردِ کامل کی تکمیل کے لئے جد و جہد کرنا ۔ ان تینوں مناسب کی انجام دہی کے لئے عشق ، فقر ، شجاعت، رواداری ، کسبِ حلال اور مقاصد آفرینی جیسے چھ اہم امور کی پابندی لازمی ہے جن کی بدولت اثبات ذات سے سیرت میں چمک پیدا ہوتی ہے۔خودی اقبالؔ کا خاص موضوع سخن ہے ۔اگرچہ اس مبحث پر اقبال نے دو مثنویاں اسرار خودی اور رموزِ بے خودی تصنیف کی ہیں لیکن یہ مسئلہ انہیں اس قدر دلنشیں تھا کہ دیگر مجموعہ ہائے کلام میں جا بجا اس کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ خودی یا انانیت کا لفظ اردو میں کبر و تمرد کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر اقبالؔ نے اسے ایک فلسفیانہ اصطلاح کے طور پر اس احساس اور عقیدے کے لئے استعمال کیا ہے کہ فرد کا نفس یا انا ایک مخلوق اور فانی ہستی ہے لیکن یہ ہستی اپنا ایک علیٰحدہ وجود رکھتی ہے جو عمل سے پائیدار اور لازوال ہو جاتا ہے۔اقبالؔ کے نزدیک کائنات کی اصل ایک وجود بسیط ہے جس کے اندر شعور اور ارادے کی قوتیں مضمر ہیں ۔ ان قوتوں کو فعل میں لانے کے لئے اس نے اپنے آپ کو خود اورغیر خود یا فلسفے کی اصطلاح میں موضوع اور معروض میں تقسیم کر دیا۔ خودی اپنی تکمیل اور استحکام کے لئے غیر خود سے ٹکراتی ہے اور اس تصادم کے ذریعے اس کی اندونی قوتیں نشوونما پاتی ہیں ۔

 

For more Subscribe me 

Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160