اسلام زندہ ہوتا ہے ہر "کربلا" کے بعد

Posted on at


دین اسلام قربانی کا نام ہے اس کے سال کی ابتداء و انتہا قربانی سے ہی ہوتی ہے۔ اسلامی سال کے پہلے ماہ محرم الحرام میں نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین ؓ نے اپنے 72 جانثاروں کے ساتھ دین اسلام کو بچانے کے لیئے میدان کربلا میں قربانی دی تو دوسری جانب اسلامی سال کے آخری مہینے ذوالحجہ میں پیغمبر خدا حضرت ابراہیم خدائے بزرگ و برتر کی خوشنودی و رضا اور مشیت ایزدی کے پیش نظر اپنے  گوشہ  جگر  حضرت  اسما عیل کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں خدا کے حکم سے ان کےفرزند کی جگہ قربانی کے لئے دنبہ آجاتا ہے اور یوں حضرت ابرا ہیم ؑ اپنے امتحان میں پورےاترتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام ہی دنیا میں وہ واحد عظیم دین حق ہے کہ جس کے آغاز واختتام دونوں میں شہادت و قربانی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔



یوں تاریخ اسلام کا ہر باب ہی انتہائی خون آشام الم انگیز واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے لیکن ان میں وہ باب بڑا ہی خونیں قبا اور شفق رنگ ہے جس میں معرکہ کربلا کی داستان عشق بیان کی گئی ہے جس کو لکھتے ہوئے قلم کا سینہ شق ہو جاتا ہے۔ دل کپکپا اٹھتا ہے روح تھر تھرا جاتی ہے اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔



حضرت امام حسین ؓ ہی وہ عظیم المرتبت شخٖصیت ہیں جن کا عشورہ اس آئینہ کی مانند ہے جس میں ھقیقی عزت ، آزادی شرف ، واقعیت ، بلند انسانی اقدار اور اللہ کی راہ کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ ان کی "کربلا" کرامت ، بیداری ، لیاقت ایمان اور اصالت کا مرکز و محور نظر آتی ہے۔



امام حسینؓ نے اپنے کردار کے ذریعے مسلمانوں کو یہ درس دیا ہے کے اگر تم واقعتاً دیندار ہو اور تمارا خدا اور اس کے دین پر مکمل عقیدہ و ایمان ہے تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم اللہ اور اس کے دین کے مطابق مشرکین کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہو اور ناموس الٰہی کی حفاظت کے لئے ذلت و رسوائی کی زندگی قبول کرنے سے انکار کردو۔



حقیقی آزاد اور مسلمان انسان ہو ہے جو اپنی گردن میں صرف اور صرف اطاعت الٰہی اور عبودیت خدا وندی کاطوق ڈالنا پسند کرتا ہے کہ جبکہ کسی بھی ایسی طاقت کے سامنے جو غیر اللہ ہے سر تسلیم خم نہیں کرتا اور ان کے مقابلہ میں سیسہ پلائی دیوار کی مانند ڈٹ کر کھڑا ہوجاتا ہے۔


اسلام کی حفاظت اور امام حسینؓ کی پیروی کا جذبہ ہی ہے جو فدا کاری سے سر شار ہوتا ہے اور اس کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے۔ یہ ہی وہ جذبہ ہے جو جان و مال بیوی بچوں اور اپنے تمام گھر بار تک کہ قربان کرسکتا ہے۔



حضرت امام حسینؓ کو نہ تو ملک گیری کی ہوس تھی نہ وہ ذاتی اقتدار چاہتے تھے امام حسینؓ کا مقصدشہادت دراصل اسلام کی آئینی عظمت کا نہ مٹنے والا نقش قائم کرنا تھا۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں طاقت اور اقتدار کو حق نہ سمجھا جائے بلکہ حق کو حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس کی جا ئے ضمیر ، نفس کو رواج دیا جائے۔ انسانی ہمدردی ، رواداری ، امن پسندی ، صبر ، شجاعت ، ایثار و قربانی اور دشوار منزلوں کے سامنے آنے پر پائے ثبات میں لغزش نہ ہو۔


امام حسینؓ کا یہ اعلان تاریخ اسلام میں کتنی اہمیت رکھتا ہے۔


  اگر حکومت قرآن و سنت پر قا ئم نہ ہو تو ظالموں اور جابروں کے ساتھ تعا ون کرنا نہ صرف گناہ ہے بلکہ جو شخٖص دیکھے اور خاموش رہے اس کا بھی شمار ظالموں میں کیا جائے اور اس طرح ذلت کی زندگی سے موت بہتر ہے۔



اگر نواسہ رسول ﷺ روز عاشورہ اپنے خاندان ، رفقاء اور عزیزوں کی قربانی پیش نہ کرتے تو نوع انسان یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ حق و باطل کے سا منے جھک گیا ہے۔ لیکن امام حسینؓ نے میدان کربلا میں جو عظیم قربانی پیش کی ہے اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ باطل ہمیشہ مٹنے والا ہے خواہ اس کے پیچھے کتنی ہی بڑی قوت کار فرما کیوں نہ ہو


لہذا ہم شہدا کربلا کی روحوں کو خراج عقیدت اس طرح پیش کرسکتے ہیں کہ باطل کی قوتوں کے خلاف جہاد کریں اور اس مشن کو پورا کریں جس کا آغاز آج سے چودہ سو سال پیشتر میدان کربلا میں ہوا تھا۔





About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160