اعتدال

Posted on at


پاکستان کی بہادر بیٹی ملالہ یوسفزئی کو نوبل پرائز سے نوازے جانے کے بعد جہاں فخر و انبساط کی ایک کیفیت ملک کے طول و عرض میں محسوس کی جارہی ہے وہیں ایک طبقے کی جانب سے اس ’’انعام‘‘ کے بارے میں تحفظات اور خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ صحافتی تقاضوں کی مکمل پاسداری کی جائے تو اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ماضی کی نسبت اس ’’طبقے‘‘ کے تحفظات کی قبولیت و پذیرائی میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ در حقیقت یہ انتہائی اہم سوال ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آخر نوبل امن انعام جیسی فقیدالمثال کامیابی پر تنازعے کا رنگ کیوں چڑھتا جا رہا ہے۔کیا من الحیثت القوم ہم اپنے ہیروز کی قدر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں؟ اہلِ دانش کا ایک بڑا طبقہ اس سوال کا جواب نفی میں دیتا ہے بلکہ الٹا یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پاکستانی قوم اپنے ہیروز کو سر آنکھوں پر بٹھانے اور ان کی پرستش کے لیے مشہور ہے۔ تو پھر ملالہ یوسفزئی کا بے مثال کارنامہ سوالات کی زد میں کیوں ہے؟ میرے خیال میں جذبات سے ہٹ کر اس معاملے کواعتدال اور توازن کے ساتھ پرکھا جائے تو اس کے مندرجہ ذیل پہلو سامنے آتے ہیں۔
خدمتِ انسانی کے تصوارت میں ابہام
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی روایتی صف بندی اور تعلیم و شعور کے واضح فرق کے تحت جدید مغربی معاشرت اور پاکستانی معاشرے کے خدمتِ انسانی یا سوشل ورک کے تصورات میں ایک خلیج حائل ہے۔ اہلِ مغرب کے ہاں ایک نہتی بچی کا تعلیم دشمنوں کے خلاف ڈٹ جانا کسی معجز نما بہادری سے کم نہیں۔ یورپ و امریکہ کے صحافتی، سیاسی، سماجی حلقوں اور عوام کے لیے یہ ایک محیر العقول کارنامہ ہے ۔ اس پرجوش رویے کا سبب پاکستانی عورت اور سماج کے روایت پسندانہ امیج کا ایک غلط تصور بھی ہے۔ 
امریکی جنگی جنون
پاکستانی عوام کی اکثریت کسی بھی ایسے معاملے کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے جس میں امریکی اثر و رسوخ اور دلچسپی ضرورت سے زیادہ محسوس ہو ۔ افغانستان اور عراق کی جنگوں اور ڈرون حملوں کے باعث امریکی ساکھ پوری طرح مجروح ہو چکی ہے اور ایک وسیع طبقہ امریکی طرفداری اور امریکہ نوازی کو قابلِ مذمت سمجھتا ہے ۔ 
غیر سرکاری تنظیموں کا کردار
پاکستان میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی اکثریت پاکستان کے روایتی تمدن اور ثقافت کے حوالے سے اجنبیت کا شکار ہے۔ ان تنظیموں کے مخالفین یہ سوال پوچھتے ہیں کہ لال مسجد آپریشن اور ڈرون حملوں میں مرنے والے بے گناہ افراد کے لیے ان تنظیموں کی طرف سے آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی۔ 
یک طرفہ طرزِ فکر
پاکستانی عوام طالبانائزیشن اور امریکی اثر و روسوخ دونوں کو نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ طالبان کی حامی مذہبی جماعتیں انتخابی پذیرائی سے محروم رہتی ہیں۔ عمران خان کی ڈرون حملوں کے خلاف مہم کو سراہا گیا تاہم یہ سوال بار بار اٹھایا گیا کہ وہ وہ خود کش حملوں کی کھل کر مخالفت کیوں نہیں کرتے۔ 
نوبل امن انعام کا ماضی
نوبل امن انعام ایک سے زیادہ بار دنیا بھر میں تنازعہ کا شکار ہو چکا ہے۔ بارک اوباما، ہنری کسنجر اور ایرول شیرون جیسے ’’امن پسندوں‘‘ کو یہ انعام ملنے پر کافی لے دے رہی۔ یہ تاثر بھی جڑ پکڑ چکا ہے کہ ویت نام ، ایران اور کیوبا کے امریکہ نواز دانشوروں کو ہی اس اعزاز کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ سوال بار بار گردش کر رہا ہے کہ اگر ملالہ امریکی فوجی کی گولی سے زخمی ہوتیں اور انہوں نے عراق اور افغانستان جنگ کے خلاف آواز اٹھائی ہوتی تو کیا انہیں یہ اعزاز ملتا؟ 
انتہا پسندی
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ انتہا پسند طبقہ پاکستانی قوم اور اقوامِ عالم کی ہر متنازعہ اور غیر متنازعہ کامیابی کا ناقد رہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام جیسے عظیم سائنسدان کو محض مذہبی عقیدے کی بنیاد پر دیس نکالا دے دیا گیا۔ چاند کی تسخیر کا دعویٰ ابھی تک ہضم نہیں ہو پایا۔ حتیٰ کہ ملالہ کو گولی لگنے کا واقعہ بھی ’’مشکوک‘‘ قرار دیا گیا۔ 
مندرجہ بالا تجزیے کی روشنی میں اعتدال کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ امریکی حمایت یا مخالفت کسی اچھائی کو برائی میں اور برائی کو اچھائی میں نہیں بدل سکتی۔ نوبل انعام کا اعلان کرنے والی کمیٹی کو بھی اس اعزاز کی غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لیے اسے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے نرغے سے نکالنا ہو گا۔ سازش کی بوسونگھنے والوں کو ملالہ کی معصومیت اور سچائی کا بھی اعتراف کرنا چاہیے۔ ملالہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی توجہ فروغِ تعلیم پر مرکوز رکھیں اور سیاسی معاملات پر رائے زنی سے گریز کریں ۔ وہ پوری قوم کا فخر ہیں۔ اوباما کو ’’آئیڈیل شخصیت‘‘ قرار دینے جیسے بیانات ان کے مداحوں کو رنجیدہ کرتے ہیں۔

 

For more Subscribe me 

Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160