آلودگی۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ ایک عذاب

Posted on at


جاندار کے اپنے پھیلائے ہوئے فاضل مادے جو اس کے لئے نقصان دہ ہوں آلودگی کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ آلودگی کی تین قسمیں ہیں۔


  فضائی آلودگی 


               ما حولیاتی آلود گی


 شور


فضا ئی آلودگی


فیکڑی میں کا م کرنے والا مزدور زیادہ سے زیادہ دو یا تین سال تک کام کر سکتا ہے۔ اس کے بعد اس کے پھیپھڑے ناکارہ ہو جاتے ہیں وہ کینسر جیسی مہلک اور جان لیوا بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے خاندان میں فاقے شرو ع ہو جا تے ہیں اور فا قوں سے مرنے لگتے ہیں آخر تنگ آ کر اس گھر کا سربراہ چوریا ں کرنا شروع کر دیتا ہے اور آخر کار تبا ہی و بربادی اس گھر کا مقدر بن جاتی ہے۔



فیکٹری کا دھواں نہ صرف اس میں کام کرنے والے مزدوروں کے لئے نقصان وہ ہے بلکہ آس پاس کے رہتے والے لوگوں کے لئے بھی مضر ہے۔ فیکڑیوں اور صنعتوں کے مالک جو ہر مہینے لا کھوں روپے منا فع حا صل کرتے ہیں کیا ہو صرف چند ہزار روپے خرچ کرکے خاص قسم کی چھٹیاں استعمال نہیں کرسکتے؟ یہ لوگ اپنے فا ئدے کے لئے انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ کیا ان کو پو چھنے والا کوئی نہیں ہے۔ قیامت کے روز ان کا حساب ہو گا کہ تم نے اپنے فا ئدے کے لئے انسا نی زندگیوں سے کیوں کھیلا۔ تب شا ید ان کے پاس کو ئی جواب نہ ہو گا۔


سیلنسروں سے نکلنے والا دھواں، گاڑیوں اور مو ٹر سا ئیکلوں سے نکلنے والا دھواں بھی انتھا ئی زہریلا ہوتا ہے جو فضا کو گندہ کرنے میں فیکٹریوں اور صنعتوں سے کسی درجہ بھی کم نہیں ہے۔ 


گاڑیوں کا استعمال


  اگر ایک گھر میں پانچ افراد ہیں تو وہ پانچ ہی گاڑیوں بھی رکھتے ہوں گے ہر ایک کی اپنی گاڑی ہوگی اور اگر ان میں سے کسی ایک کو تھوڑی دور بھی جانا ہو تو وہ گاڑی یا مو ٹر سا ئیکل پر جاتے ہیں جو فضا کو گندہ کرئے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم تھوڑا پیدل جل لیا کریں تو ہماری ہی صحت کے لئے اچھا ہو گا اور آلودگی بھی نہیں پھیلے گی۔


شا پنگ بیگ کا استعمال


شاپنگ بیگ کا بہت زیادہ رواج ہے اگر کوئی چھوٹی سے چیز بھی لینی ہو تو سب سے پہلے یعنی ابھی پیسے بھی نہیں دئیے ہوئے ہوتے ہیں اور شاپنگ بیگ طلب کر لیا جاتا ہے پھر اس پلاسٹک کے لفافے کو پھینک دیا جاتا ہے۔ جمعدار ان لفافوں کو اکٹھا کر کے کوڑے کے ڈھیر میں آگ لگا دیتا ہے اور جب یہ لفافہ جلتا ہے تو زہریلا دھواں فضا میں پھیلنا شروح ہو جاتا پئ اگر ہم لفافوں کی جگہ کپڑے کے تھیلے استعمال کریں تو وہ زیادہ بہتر ہے کیو نکہ اس طرح آلودگی بھی نہیں پھیلے گی۔


ماحولیاتی آلودگی


آبدی کے پھیلاؤ کی بنا پر جنگلات میں شدید کمی ، زرخیز زمین کی بربادی ، صنعتوں میں کثیر اضا فہ ، گاڑیاں وغیرہ اور اس جیسی دوسری اشیاء میں اضافہ سب ماحولیاتی آلودگی کیں خطرناک حد تک اضا فے کا سبب ہیں۔


ادویات کا چھڑ کاوٗ


فصلوں پر ادویات کا چھڑکاوٗ نہایت نقصان دہ ہوتا ہے۔ جب یہ ادویات چھڑکی جاتی ہیں تو زمین ان کو جذب کر لیتی ہے اور پھر اس زمین پر لگی ہوئی فصل ان ادویات کو جذب کر لیتی ہے اور یہ فصل زہریلی ہو جاتی ہے ان فصلوں کو استعمال کرنے سے کئی قسم کی بیمارئیاں جنم لیتی ہیں اور انسانی زندگیاں ختم ہونے لگتی ہیں۔ ایک زمینی سروے کرنے کے بعد پتہ چلا کہ پہلے جب ادویات کا چھڑکا وؑ  نہیں کیا جا تا تھا تو کپاس کا پھول زیادہ اور موٹا ہو تا تھا لیکن اب فصلیں تہ زیا دہ بڑی ہوجاتی ہیں لیکن کپاس کا پھول پہلے جیسا مو ٹا اور زیا دہ نہیں ہوتا۔


زہریلے پانی کے اثرات


شہروں ، صنعتوں اور فیکڑیوں کا گندا پانی اور گندا مواد سب کچھ دریاؤں اور ندی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جس سے یہ پانی زہریلا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے جھیلوں اور دریاؤں کا پانی آلودہ ہوتا جا رہا ہے۔


ایک سروے کے مطابق لاہور کی صنعتوں، فیکڑیوں کا گندا مواد اور شہر کا ساراگندہ پانی دریائے راوی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جس سے سارا پانی زہریلا ہو چکا ہے۔ اس گندہ پانی ہی کی وجہ سے زمین بنجر ہو رہی ہے۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ بہتا ہوا پانی صات ہوتا ہے لیکن اب یہ صورت حال نہیں رہی۔ سا ئنسی تحقیق کے مطابق بہتا ہو پانی بھی آلودگی سے پاک نہیں ہے۔ فالتو صنعتی مادے جب بغیر صاف کئے دریاؤں میں پھینک دیئے جاتے ہیں۔ تو یہ کسی نہ کسی طریقے سے جراثیم کی صورت میں انسانی جسم کے اند پلتے ہیں اور خطرناک قسم کی پیماریاں جنم لیتی ہیں۔ جن سے بچے اور بوڑھے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان بیماریوں میں کینسر، دماغ کی بیماریاں ، پھیپھڑوں کی بیماریاں ، آ نکھ کی بیماریاں وغیرہ شامل ہیں۔ پلاننگ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں چالیس فیصد اموات آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے ہیں۔ شور


جس کو آلودگی تصور نہیں کیا جا تا تھا لیکن اب کچھ عرصہ سے پہت سے لو گوں نے شور کو اپنے ما حول کا حصہ تسلیم کر لیا ہے مگر اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے شور کو آلودگی نہیں تصور کیا اور اس کی طرف زیادہ توجہ بھی نہیں دی گئی۔ 


موت کا ایجنٹ


عملی طور پرشورکو ناپنے کے لئے مختلف اکا ئیا ں استعمال کی جاتی ہیں بین الاقوامی طور پر شور کی اکا ئی ڈیس بل ہے۔ امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مختلف شواہد سے یہ بات ثابت ہو ئی ہے کہ دل کی بیماریوں ، جسمانی بے قا عد گیاں ، ذاتی کھچا ؤ وغیرہ شور و غو غا والے علا قے میں رہنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ برطانیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 1700 میں لوہے کا کام کرنے والے آواز کی آلودگی کی وجہ سے بہرے ہو گئے اور کئ لوگوں کو کم سنا ئی دینے لگا۔


پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں گاڑیوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہو ہے اور اس کے ساتھ بڑھتی ہو ئی آبادی کی وجہ سے بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آواز کی آلودگی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔سب سے مدہم ترین آواز جو انسانی کان محسوس کرتا ہے ہو ایک ڈیسی بل مکمل خامو شی والے ماحول میں آواز کی سطح چھ ڈیسی بل ہے۔



گھر کے اند عام گفتگو کے وقت پچپن ڈیسی بل ہوتی ہے جیٹ طیارے کی آواز ایک سو پچاس انسانی کان پچپن ڈیسی بل کی آواز عام گفتگو کے وقت آسانی سے سنتا ہے عام صنعتوں کے اندر پچھتر ڈیسی جل ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ سطع بڑھ کر 85 ڈیسی جل ہو جا ئے تو یہ انسان کو بے آرام کر دیتی ہے جبکہ 90 سے  95  ڈیسی بل کا شور انسانی صحت کو گہرا نقصان دیتا ہے۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160