بے مشال ہے سیرت حضرت صدیق رضی علہ تعالہٰ عنہ

Posted on at


سیرت حضرت صدیق اکبر

یار غار ، رفیق نبوت ، رازدار رسالت، سوائے انبیا۶ کے تمام انسانوں سے افضل جا نشین مصطفیٰ ﷺ وسلم ، اول المسلمین خلیفہ اول سیدنا حٖضرت ابو بکر صدیق رضی علہ تعا لیٰ عنہ کے متعلق حضرت محمد ﷺ نے فرما یا "بے شک جان ومال کے لحاظ سے ابو بکرؓ سے زیا دہ مجھ پر کس کا احسان نہیں ہے"۔

آپ ﷺ کو اپنے صحابہ ؓ میں سے جس پر سب سے زیاکہ اعتماد اور ناز تھا وہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات گرامی ہے ایک مرتبہ ایک عورت کسی مسئلہ کے سلسلہ میں آپ کے پاس حا ضر ہو ئی آپ نے عرض کیا اگر پھر آوں آپﷺ کو نا پا وں تو کس سے ملوں آپﷺ نے فرمایا اگر پھر آو اور میں نہ ہوں تو ابو بکرؓ سے مل لینا۔

تاریغ میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ہر منزل ہر مقام اور ہر موڑ پر آنحضور ﷺ کے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔ اس لئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا

صدیق ؓ کیلئے ہے خدا کا رسول بس

بچپن ، جوانی ، ادھیڑ عمر ، بڑھاپا زندگی کے تمام گوشوں میں آپ ﷺ کے ہمراہ نظر آتے ہیں۔ بچپن می آپﷺ کے قریب رہے ملک شام کی طرف حضور اکرم ﷺ نے 12 برس کی عمر میں جو سفر کیا حضرت ابو بکرؓ بھی اس سفر میں شامل تھے۔ جب نبی اکرمﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو سب سے پہلے دعوت اسلام پر لبیک کہنے والے حضرت ابو بکرؓ تھے۔

اسلام لانے سے قبل بھی شرک نہ کیا۔ بت پرستی ، شراب ، چوری ، زنا سے دور رہے اس دور میں جب بچہ ہوتا تو اہل مکہ اپنے بچوں کے نام بتوں کی نسبت سے عبد عزی ، عبد لات و منات رکھا کرتے تھے آپ کااسم گرامی عبد ا لکعبہ رکھا گیا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز مہاجرین و انصار آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نہ کہا یا رسول ﷺ میں نے کبھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا۔ مزید کہا کہ ایک دن میرے والد مجھے ایک مکان میں لے گئے جہاں پر بہت سے بت تھے اور مجھ سے کہنے لگے کہ ان کے آگے سجدہ کرو میں نے بتوں سے کہا میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلا یا جائے مگر جو ئی جواب نہ ملا پھر میں نے بتوں سے مخا طب ہو کر کہا میں ننگا ہوں مجھے کپڑے دیئے جا ئیں مگر مجھے کو ئی جواب نہ ملا پھر میں نے ایک پتھر اٹھا کر بتوں سے کہا کہ اگر تم خدا ہو تو اپنے آپ کو اس پتھر سے بچا لو لیکن پھر بھی کوئی جواب نہ ملا میں نے پتھر مار کر بتوں کو توڑ دالا میرے والد مجھے مارنے لگے میں دوڑ کر اپنی والدہ کے پاس چلا گیا۔ میرے والد نے آکر سارا واقعہ والدہ کو بیان کیا والدہ نے جواب دیا اس کو چھوڑو اس کے پیدا ہوتے وقت میں نے ایک غیبی آواز سنی تھی "اے اللہ کی بندی اپنے بچے عتیق کو مبارک ہو اس کا نام آسمان پر صدیقؓ ہے اور یہ مصطفیٰﷺ کا دوست اور ساتھی ہے"۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکرؓ نے اپنی بات ختم کی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام رسولﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور تین بار عرض کیا ابو بکرؓ سچ کہتے ہیں اسلام میں سب سے پہلا پتھر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کھایا۔ صحن حرم کے اندر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب کفار آپ ﷺ کو اذیت کا نشانہ بنانے لگے تو یہ تشدد اپنے اوپر برداشت کیا۔

حضور ﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اصرار پر جب صحن حرم میں گئے اس وقت 39 کے قریب افراد السلام قبول کرچکے تھے سب حا ضر تھے ان کی موجودگی میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمانے لگے اتنے میں مشرکوں کو اطلاع ہو گئی تو سب صحن حرم میں پہنچ گئے اور نبیﷺ پر حملہ آور ہوئے تو حضرت ابو بکر صدیقؓ آگے بڑھے کفار نے آپؓ پر اس قدر تشدد کیا کہ آپؓ بیہوش ہو کر گرگئے اور لوگوں کو آپؓ کی موت میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا تھا۔

کچھ دیر کے بعد جب ہوش آیا تو زبان صرت یہ الفاظ تھے "رسول اللہ کا کیا حال ہے؟" بار بار یہی سوال کرتے حتی کہ ام جمیل نے آکر حضور اکرمﷺ کی خیریت سے آپ کو آگاہ کیا تو کچھ اطمینان ہوا مگر فرمانے لگے اس وقت تک کچھ کھاوں پیوں گا نہیں جب تک خود اپنی آنکھوں سے آپ کو نہ دیکھ لوں۔ چنانچہ اپنی والدہ اور ام جمیلؓ کے سہارے سے چل کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ کی یہ حالت دیکھ کر آپﷺ کا دل بھر آیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ رسول اللہﷺ کا رخ انور دیکھتے ہی گر پڑے۔ یہ اسی روز کا واقعہ ہے جب آپ کے چچا حضرت امیر حمزہؓ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کی والدہ نے اسلام قبول کیا۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ کو صدیق کا لقب خود حضور اکرمﷺ نے عطا فرمایا پھر قرآن نے آپؓ کو اسی لقب سے یاد کیا ہے آپؓ نے اپنی جان ، مال اور اولاد وطن غرضیکہ ہر چیز رسول اللہ ﷺ پر قربان کردی۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن پاک کا یکجا کرنا ہے۔ نبوت کے جھوٹے دعویداروں کو شکست آپ نے دی آپ کے زمانہ میں ہی سب سے بڑے جھوٹے نبی مسلمہ کذاب کو قتل کیا گیا۔ اسلام کے اہم رکن زکوۃ کے سلسلہ میں آپ کی خدمات نا قابل فراموش ہیں

اُپؓ نے فرمایا ہر وہ شخص جو شریعت کے کسی رکن کی خلاف ورزی کرنےکو جا ئز کہے گا میں اس کے خلاف جہاد کروں گا۔ آپؓ نے منکرین زکوۃ کے خلاف بھر پور کاروائی کی اور ایک ایک کرکے سب سے زکوۃ وصول کی۔ خلافت کے شروع میں آپ کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ نے کمال تدبر اور معاملہ فہمی سے ان مسائل پر قابو پالیا۔

آپؓ جس روز خلیفہ بنے تو وہ دوسرے روز کندھے پر کپڑے کے تعان رکھ کر بیچنے جارہے تھے کیونکہ آپؓ کا ذریعہ معا ش یہی تھا حضرت عمرؓ سے ملاقات ہوئی انہوں نے کہا اب آپ کے سر پر مسلمانوں کی سرداری کا بوجھ آپڑا ہے تجارت کا کام اس کے ساتھ نہیں ہوسکتا چنا نچہ آپ کا4 ہزار درھم سالانہ وظیفہ مقرر ہوا لیکن آپؓ نے وصیت فرمائی کہ میرے بعد آٹھ ہزار درہم بیت المال کو واپس کر دیئے جا ئیں جب یہ مال حضرت عمرؓ امیر المومنین کے پاس لا یا گیا تو آپ بے اختیار پکار اٹھے "اللہ ابو بکرؓ پر رحم فرما۔ بعد میں آنے والوں کو انھوں نے مشکل میں ڈال دیا ہے"۔

آپ کا وصال 22 اگست 634ء بروز پیر بمطا بق 22 جمادی الا خر 13 ہجری کو سورج غروب ہونے کے بعد 63 سال کی عمر میں ہوااور وصیت کے مطابق اسی رات آپ کو دفن کیا گیا۔ آپ کی میت مبارک اسی چارپا ئی پر رکھ کر مسجد نبوی لے جا ئی گئی جس پر رسولﷺ کا جسد اطہر اٹھا کر قبر مبارک میں اتارا گیا تھا۔

آپؓ کا جنازہ حضرت عمر فارقؓ نے پڑھا یا اور رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں جو قبر تیارکی گئی تھی اس میں حضرت عثمانؓ حضرت طلحہؓ حضرت عبد الرحمانؓ اور خود حضرت فاروقؓ نے اتار کر مٹی ڈالنے کے بعد لوگ روتے ہوئے حجرے سے باہر نکلے اور خلیفہ الرسول کو رسولاللہﷺ کے پہلو میں چھوڑ آئے۔ زندگی بھر دونوں ساتھ رہے اور رفاقت بعد از وصال بھی ختم نہ ہوئی رسولﷺ کا سب سے محبوب خادم اپنے آقا کے ساتھ ہی آرام فرما رہا ہے۔

 



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160