معاشرتی برائیاں

Posted on at


کسی بھی معاشرے کے معیارات کو پرکھنے کا پیمانہ اسکی اقدار ہی ہوتی ہیں۔ یعنی قدورں کے اساس پر ہی سماج کی عمارت قائم ہوا کرتی ہے۔ خوش قسمتی سے ہماری قدروں کو مٹی مقامی ثقافت اور اسلامی تہزیب کی آمیزش سے گوندھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کے سیاہ دور میں بھی ہماری اقدار کی بنیاد پر تعمیر ہونے والا مسکن زمین بوس نہ ہو سکا۔



 


آپ ذرا سیاسی خانقاہوں، نام نہاد دانش وروں، فرقہ پرستی کی تربیت گاہوں بدعنوانی اور نفسیاتی خواہشات کے بد کدوں ، دہشت گردی  کے مورچوں اور بے حیائی کے نگار خانوں، غیبتوں کے چائے خانوں، سود خوروں کے بنکوں، سنگدلوں کے ہسپتالوں اور قطع رحمی کے مکانوں میں جھانکیے اور دیکھئے کہ کیسی کیسی قیامتیں برپا ہیں۔



 


بلاشبہ برے بھلے ہر طرح کے لوگ معاشرے میں ہوتے ہیں۔ ہمارا سماج بھی نیکیوں سے خالی نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اب نیک روحیں بھی کم و بیش دکھائی دیتی ہیں۔ کچھ مردو ضمیر لوگوں نے سماجی برائیوں کی فصل کاشت کر کے سوسائٹی کو جہنم بنا دیا ہے۔ دہشت گرد اور قاتل کے قلب میں رحم کا ذرہ بھی باقی نہیں رہا ۔ چور، ڈاکو کے دل میں کسی کے ساتھ ہمدردی کا کوئی جزبہ نہیں ہے۔ عدالت میں کھڑے ہو کر خدا کو حاضر و ناظر قرار دے کر جھوٹی گواہی دینے والے کو قطعاَ کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ بس یہ معاشرتی برائیاں ہمارا مقدر بن چکی ہیں۔



 


 


بقول شاعر


      میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے


 ہے کوئی اس خواب کی تعبیر بتانے والا



About the author

160