چنیوٹ شہر اور اس کی وجہ شہرت

Posted on at



چنیوٹ دریائے چناب کے کنارے واقع ایک خوبصورت، تاریخی اور ثقافتی شہر ہے، کہا جاتا ہے کہ اس شہر کا نام ایک ہندو پنڈت چنی وٹ کے نام پر رکھا گیا تھا، ، اسے قدیم سوداگروں کی بستی بھی کہا جاتا ہے، پنجاب کے وسط میں واقع یہ شہر اپنی عمارتوں ،اپنے ہنر مندوں اور کاریگروں کی محنت کی بدولت پوری دنیا میں مشہور ہے۔ باہر سے جو بھی اس شہر میں آتا ہے اس شہر کی عمارات اور ہنر مندی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔


چنیوٹ کی شیخ برادری اپنی کاروباری حیثیت اور مالداری کی وجہ سے مشہور ہے، اس برادری نے اس شہر کے لیے بہت سے فلاحی کام بھی کیے ہیں۔



چنیوٹ کی تاریخی بادشاہی مسجد کے بارے میں متضاد روایات ملتی ہیں اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسے کس نے تعمیر کروایا تھا، اس مسجد کا نقشہ لاہور کی مشہور عالم  بادشاہی مسجد جیسا ہے، اس کی تعمیر میں مقامی دیسی ساخت کا پتھر استعمال کیا گیا ہے جس کا رنگ سرمئی ہے۔ لوگ اس مسجد میں شوق سے عبادت کرنے آتے ہیں اور اس کے فن تعمیر سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔



چنیوٹ کی تاریخی عمارات میں انتہائی شہرت کی حامل عمر حیات کا محل ہے، اسے عمر حیات کا محل بھی کہا جاتا ہے جسے ۱۹۳۰ میں چار لاکھ کی خطیر رقم سے تعمیر کیا گیا۔ لکڑی اور اینٹوں کا خوبصورت کام ہمیں اس کے در و دیوار پر نظر آتا ہے، اتنا نفیس، عمدہ، دیدہ زیب اور دلکش کام شاید ہی کہیں اور دیکنے کو ملتا ہو، اس کی تعمیر میں شیشم کی لکڑی کو استعمال کیا گیا ہے، فن تعمیر کے حوالے سے یہ عمارت ہنر مندی کا ایک عظیم شاہکار ہے، یہ دیکنے والے کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے۔، ترک کر دی گئی اس عمارت میں اب لائبریری قائم ہے۔



چنیوٹ کی وجہ شہرت یہاں کا لکڑی کا کام ہے، چنیوٹ کا نام ہی اس میں بنائے گئے فرنیچر کی خوبصورتی، اور اعلیٰ معیار کا ضامن ہے، اس فرنیچر کو شیشم کی لکڑی سے تیار کیا جاتا ہے، دنیا بھر میں اس فرنیچر کی بہت مانگ ہونے کی وجہ سے شیشم کی لکڑی یہاں ناپید ہو چکی ہے، اس فرنیچر کے خریدار کاریگروں کے ہنر کی منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہوتے ہیں کیوںکہ انہیں اس میں کی گئی محنت کا ادراک ہوتا ہے، حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باوجود یہ صنعت ترقی کر رہی ہے اور پاکستان کے زر مبادلہ کما رہی ہے،پاکستان کے لیے یہ ایک قابل فخر شہر ہے۔



چنیوٹ سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر مشہور داستان ہیر اور رانجھا کی قبریں واقع ہیں، ہیر اور رانجھا ایک ہی قبر میں دفنائے گئے ہیں، لوگ اس قبر پر روزانہ حاضری دینے اور دعائیں کرنے آتے ہیں۔




About the author

160