والدین کی عظمت

Posted on at


والدین خدا کی طرف سے ہمارے لیے وہ انمول تحفہ ہیں جس کا مقابلہ دنیا کا کویٗ ہستی نہی کر سکتی۔ نہ ہی والدین کا نعم البدل کویٗ اور رشتہ ہوسکتا ہے۔یہ ایک ایسا ساہبان ہے جو اپنی اولاد کو ہر قسم کے دکھ سے بچاتاہے۔ہمارے ماں باپ کسی بھی تکلیف کے ہم تک آنے نے پہلے ہی اس کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسی دیوار جس میں بڑے سے بڑا طوفان بھی ذرہ برابر رخنہ تک نہی ڈال سکتا۔

 

انسان کی پیداہیش ایک فطری عمل سے جڑی ہے۔جب ایک ماں 9 ماہ تک اپنی اولاد کو پیٹ میں رکھنے کے بعد جب اس کو جنم دیتی ہے تو اس کا درجہ بہت بلند ہو جاتا ہے۔اس بلند رتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا ستکا ہے کہ اگر ہم ساری زندگی بھی اپنی ماں کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر سفر کرتے رہیں تب بھی ہم اس ایک رات کا بدلہ بھی نہی اتار سکتے کہ جب بچہپن میں ہم نےاپنابستر خراب کر کے اپنی ماں کو بے آرام کیا تھا۔ذرہ اندازہ لگایہے کہ ماں کا رتبہ کیا ہے۔

 

اولاد کو جنم دینے کے بعد ماں اس کا بہت خیا رکھتی ہے۔ اپنی نیند کو ختم کر کے ساری ساری رات جا گتی ہے۔تاکہ اس کی اولاد پر سکون طریقے سے اپنی نیند پوری کر سکے۔بچہ ولادت کے فورآ بعد بولنے کے قابل نہی ہوتا جب تک کہ وہ اپنی4یا  5 سال کی عمر کو نہ پہنچ جاءیے۔ مگر اسکے با وجود ماں اپنے بچے کی بے چینی محسوس کر لیتی ہے کہ بچے کو بھوک لگی ہے یا اس کی طبیعیت خراب ہے۔جب بچہ بولنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اسکی ضروریات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماں کی مصروفیت بھی بڑھ جاتی ہے۔

 

جب بچہ سکول جانے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو سکول داخل کرایا جاتا ہے۔ اپنی روٹین تبدیل ہونے کی وجہ سے وہ روتا ہے ضد کرتا ہے۔ اپنی ماں سے دور سکول میں نہی جانا چاہتا۔ اس کی ماں اسکے ساتھ روز سکول جاتی ہے اسکو سکول تک چھوڑنا اور ویاں سے واپس لانا بھی اسکی ماں کی ہی ذمہ داری ہے۔اور وہ اپنی یہ ذمہ داری بھی بڑی خوش اسلوبی سے پوری کرتی ہے۔تاکہ اس کا بچہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کی ابتدا کر سکے۔

 

ماں کے کر دار کے ساتھ ساتھ باپ کے کردار کو بھی نظر انداز نہی کیا جاسکتا۔ اگر ماں گھر کے اندر اولاد کی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔اس کا خیال رکھتی ہے تو باپ بھی اپنی ذمہ داری خوش اسلبی سے پوری کرتا ہے۔گھر چلانے کے اخراجات،بچوں کی ضروریات ان کی تعلیم کا خرچہ سب ہی ایک باپ کی ذمہ داری میں آتے ہیں۔

سارا دن محنت مزدوری کر کے گھر واپس آنے پر جب بچہ اپنی توتلی ذبان میں اپنی باپ کو پکارتا ہے تو اس کے سارے دن کی تھکن اتر جاتیہے۔اور وہ تاذہ دم ہوجاتا ہے۔ وہ بہت خوشیسے اپنے بچے کے ساتھ کھیلتا ہے۔اسے خوش کرنے کے لیے مختلف کرتا ہے۔ اس کا مقصد اپنے بچے کو ہنستے مسکراتے ہویہے ہی دیکھنا ہوتا ہے۔

زندگی اسی طرح اپنا سفر طے کرتی جاتی ہے۔ ماہ و سال گزرتے جاتے ہیں اور وہ دن بھی آتا ہے جب اولاد جوان ہے جاتی ہے۔اور ماں باپ اس اپنے بڑھاپے کا واحد سہارا سمجھنے لگتے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طرح ماں اور باپ نے اپنی اولاد پر کوءہی آنچ تک نہی آنے دی بلکل اسی طرح اب اولاد بھی اپنا فرض پورا کرے۔ مگر ہوتا اس کے برعکس ہے۔بچے اپنے ماں باپ سے وہ سلوک نہی کر پاتے جو انھیں کرنا چاہے۔ بہت کم خوس نصیب ایسے ہوتے ہیں کہ جو اپنے ماں باپ کی خدمت کر کے اپنی ذندگی میں ہی جنت کے حق دار ٹھہر جاتے ہیں۔

وہی بچے جو بچپن میں اپنے والدین کی انگلی تھام کر چلا کرتے تھے آج اپنے ماں باپ کو دو قدم تک سہارا دینے کے بھی روادار نہی ہوتے۔اپنی مرضی سے ہر وہ کام کرتے ہیں جو انھیں پسندہو۔

ہمارے پاس  موباہیل پر اپنی گرل فرینڈ سے  بات کرنے کا تو بہت ٹایم ہوتا ہے مگر اپنے والدین کے پاس چند لمحے گزارنے کو ہم اپنے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ہم اپنی خوشی کے لییے راتوں کو دیر تک گھر سے باہر تو رہ سکتے ہیں مگر اپنے ماں باپ کی خوشی کے لیے ہم رات کا کھانا ان کے ساتھ نہی کھا سکتے۔

 ارشاد ربانی ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اگر آج ہم اپنے رویوں پر نظر دوڑایہں تو آسانی سے یہہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ ہم لوگ خود ہی اپنے ھاتھوں سے اپنی جنت کو دوزخ میں تبسیل کر رہے ہیں۔ خدارا سوچیہے اور اپنی اصلاح اپنے وادلین کی ذندگی میں ہی کر لیجیے۔ 

 

خدا ہم سب کے وادین کا سیایہ ہمارے سروں پر قایم رکھے۔

آمین



About the author

160