تعلیمی تقاضے،پاکستان،نسل نو اور نظام تعلیم

Posted on at


 

ہم مسلمان ہیں اور ہمیں فخر ہےکہ ہم مسلمان ہیں اسلام نے جس قدر زور علم  

اور حصول علم پر دیا ہے کسی اور بات پر اتنا زور نہی دیا کیونکہ علم سے انسان ظلمت سے نور کی طرف آتا ہے اسے اپنی ذات کی پہچان نصیب ہوتی ہے اور وہ شعور ذات ابھرتا ہے جس سے اللہ کی معرفت نصیب ہوجاتی ہے گویا  علم وہ نور ہے جس سے ذات اور کائنات دونوں روشن ہوجاتےہیں اور  یہی وہ عظیم نعمت ہے جس کے سامنے فرشتے بھی جھکتے ہیں-

ہر قوم کی سوچ کا اپنا  ڈھب ہوتا ہے اپنے نظریات ہوتے ہیں اپنا فکر ہوتا ہے ااپنی مذہبی قدریں ہوتی ہیں-اس قوم کا معیار تعلیم بھی اسی فکر نظر کے مطابق ہونا چاہیے گویا تعلیمی نظام کو اس انداز سے مرتب کرنا چاہیے کہ اس سے کسی قوم کے نظریات پھل پھول سکیں –اس کی دینی فکر کا تحفظ ہو سکے اور اس کی سوچ میں  نکھار پیدا ہو سکے کیونکہ نظام تعلیم    کسی قوم کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور سنوارنے کا ایک موئژ  ذریعہ ہوا کرتا ہے-اگر یہ نظام تعلیم ہی ہی فرسودہ ہو تو وہ کسی انداز سے بھی قومی ارتقاء کا ضامن نہیں ہو سکتا-نصہیں ہو سکتا-نصاب تعلیم اور نظام تعلیم دونوں کو قومی امنگوں کا سچا ترجمان ہونا چاہیے-

پاکستان ایک واحد مملکت ہے جس کی بنیاد کسی جغرافیائ ضروت،کسی نسلی تقاضے اور کسی ارضی کیفیت پر نہیں بلکہ مکمل طور پر نظریاتی،دینی اور روحانی ہے-اس ملک کے حصول کے وقت ہم نے یہی نعرہ لگایا تھا کہ ہمارا مقصد اسلامی عقائد کے مطابق زندگی  بسر کرنا ہے –رب نے ہمیں یہ خطہ ارض عطا کیا  اور  آج ہمیں اس وطن عزیز کے درو دیوار کو اسی بنیادی  نظرئیے کے مخصوص تقاضوں کے تحت سنوارنا اور نکھارنا ہے تاکہ اس  وطن عزیز کی فضا ؤں  میں ایسی شخصیات ابھر سکیں جن کا مسلمان اور اور پاکستان ہونا مسلمہ ہو –اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس ملک کے لیے ایسا نظام تعلیم بنائیں جو اس وطن عزیز کے بنیادی نظرئیے  سے مطابقت رکھتا ہو-

               انگریز نے اس سر زمین پر سینکڑوں سال حکومت کی-وہ یہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا- اس لیے اس نے نظام تعلیم کے ذریعے یہاں کے رہنے والونں میں غلامی کے جراثیم   پختہ کر دئیے تھے-اس نے نظام تعلیم کا ایسا خاکہ تیار کیا  جس کے تحت قومی جذبہ اور عقابی روح یہاں کے نوجوانوں میں بیدار نہ  ہو سکے-وہ چھوٹی چھوٹی  ملازمتوں کو ہی اپنا مقصود بنا لیں-وہ خاک راہ ہے میں رزق ڈھونڈتے رہیں  اور آسمان کی نیلگوں  وسعتوں سے آشنا نہ ہو سکیں-ہم آزاد ہونے کے بعد بھی ایک عرصے تک انگریز کے نظام تعلیم کے تحت چلتے رہے اور اس کے نت نئے تجربات نے روز بروز ہمارے خوابوں کو پریشان کیے رکھا اور ابھی تک تعلیم کا کوئی رخ متعین نہیں ہو سکا-

              ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک ایسا نظام تعلیم قوم کو دین جو سرا سر اسلام کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہو کیونکہ ہم لوگ اول او آخر مسلمان ہیں اور پاکستان اسلام ہی کے لیے وجود میں آیا ہے اور ہمیں تعلیم کو اسلامی قدروں کے مطابق بنا کر اس ملک کی بنیادوں کو مضبوط تر بنانا ہے-المیہ یہ ہے کہ نصاب اور تعلیم کے نظام کو تشکیل دینے والوں کے اپنے ذہنون پر  مغربی تہذیب تمدن کی چھاپ اتنی گہری ہوتی ہے کہ وہ جو خاکہ بناتے ہیں وہ کسی نہ کسی رنگ سے مغربی  تہذیب تمدن کا مظہر ہو جاتا ہے –ہم لوگ بھل جاتے ہیں کہ ہم ایک شاندار ماضی کے مالک ہیں –ہماری تہذیب ایک تابناک حقیقت ہے-ہماری روایات مسلمہ ہیں ہماری تہذیبی ،ثقافتی اور تعلیمی قدریں ہر لحاظ سے مکمل ہیں-ہمارے سامنے ہر نظام زندگی کے قابل قدر نمونے ہیں –ہمیں محتاج غیر ہونے کی ضرورت نہیں ہے –ہمیں اپنے تدریسی نظام سے  اپنے آپ کو اوراپنےمزاج نکھارنا ہے  اور دینی اصولوں کی روشنی میں درس وتدریس کو موڑنا ہے   اگر ہم تدریسی دنیا میں اسلامی انقلاب لانے مین کامیاب ہو گئے تو کوئی وجہ نہیں کہ پوری قوم سیرت و کردار کے اعتبار سے تاریخ کا ایک قابل قدر سرمایہ نہ ہو جائے کیونکہ تعلیم ہی سے ذہنی رخ متعین ہوتا ،فکری نظام سنورتا ،روحانی دنیا منور ہوتی اور دل کی وادیوں میں چاندنی اترتی ہے-

                        ہمارے نطام تعلیم کو یوں سنورنا چاہیے کہ نئی نسل کے دل سے غلامی کے اثرات ختم ہوں؛اس کی فکر میں ایک انقلاب آئے،وہ صرف ڈگری لے کر ملازمت کی تلاش میں در بدر رسوا نہ ہو بلکہ ایک ایسی قوم بن کر ابھرے جو ستاروں کی صف میں ستاروں کی طرح دمک کر،چاند کے روبرو چاند کی طرح چمک کر اور پھولوں کی صف میں کلیوں کی طرح چٹک کر اپنا مقام بنائے،جو ہمیشہ پر امید رہے ،جن کے سامنے ایک واضع منزل اور ایک روشن مستقبل ہو اور ایسی نسل تعلیمی نظام ہی کے تحت پیدا ہو سکتی ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ اگر منزل متعین نہ ہو توہر سفر بیکار اور ہر کوشش بیکار ہو کر رہ جاتی ہے –

     تعلیم کا مقصد محض کتابیں رٹا کر امتحان پاس کروانا نہیں ہے بلکہ نسل نو کی تربیت اس انداز میں کرنا ہے کہ اس کے دل میں اسلام سے لگاؤ اور حضورؐکی سچی محبت پیدا ہو ایک ولولہ ہو جو اس کے دل میں آگ لگا دے ،ایک جذبہ ہو جس کے تحت منزلیں اس کے قدم چومیں،ایک لگن ہو جو آگ کو گلزار بناتی جائے؛ایک نور ہے جس سے زندگی کی ساری منزلیں روشن ہو جائیں-نسل نو کے ہر فرد کو ایک انقلاب آفریں مبلغ ہو نا چا ہیےالغرض جب تک معلم خود سراپا عمل اور صاحب کردار نہیں ہوگا نظام تعلیم کا کوئی سا خوبصورت خاکہ بھی رنگ اور روپ نہیں لا سکے گا-



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160