افغانستان کی معذور نسل

Posted on at


ایک مثل مشہور ہے کہ مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی۔ جنگ بھی ایسی مصیبت ہے جو اپنے ساتھ بے شمار مصیبتیں اور تکالیف لے کر آتی ہے۔ غربت،افلاس،بیماریاں،قحط،عدم تحفظ اور غیر یقینی صورتحال جنگوں کی ما بعدالاثرات ہیں۔ ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان دو دہائیوں سے غیر ملکی حملوں اور اندرونی خانی جنگی کی وجہ سے لا تعداد مسائل کا شکار ہے اور باغوں،خوب صورت پہاڑوں کی اس سرزمین کے بے گناہ لوگ جہاں غربت و افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں۔ وہاں دیگر پیچیدہ اور خطرناک بیماریوں کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔ قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ ان بیماریوں کے علاج معالجے کے لیئے طبی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ اور ادھر جہاں معالجوں کی کمی ہے،ادھر ادویات کی مقدار اور جدید تشخیصی آلات بھی بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس ساری صورتحال کا مشاہدہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے کیا اور اندازہ لگایا کہ شاید افغانستان کی اگلی  نسل دنیا میں سب سے زیادہ معزوروں پر مشتمل نسل ہو گی۔

خوست کے مشرق میں ضلع کرتینا میں ایک کراۓ کا گھر ہے جس میں رہائش پزیر زرگل اپنی ایک سالہ چھوٹی بیٹی کے لئے نہایت پریشان ہے۔اس کے مطابق جب اس کی بچی کی پیدائش ہوئی تو اس کے تالو میں ایک انچ تک شگاف تھا۔اور اس بچاری کے گال پھٹے ہوۓ تھے بلکہ اگر یوں کہا جاۓ کہ اس بچی کے چہرے پر گالوں کے بجاۓ گوشت کے چھتھڑے تھے تو بے جا نہ ہو گا زرگل ہمارے سامنے رونی آواز میں خدا سے شکوہ کر رہی تھی کہ کاش خدا اسے پیدا ہی نہ کرتا تا کہ اسے میں دیکھنے کے کرب میں مبتلا نہ ہوتی۔زرگل کا شوہر محنت مزدوری کرتا ہے اور مشکل سے اپنے ماں باپ ،بہن بھایئوں اور اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی پیدا کرتا ہے

چائلڈ ہیلتھ ہاسٹل میں اس بچی کا ایک آپریشن ہو بھی چکا ہے لیکن نا کام۔ کم آمدنی کی وجہ سے زرگل اور اس کا شوہر اپنی بچی کا علاج معالجے کے لئے یہاں سے باہر بھی نہیں لے کر جا سکتے۔ زرگل نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے میری بچی کے علاج سے معزوری ظاہر کر دی ہے اور ہمارے پاس اتنی رقم نہیں کہ اپنی بچی کو پاکستان لے جا کر اس کا علاج کروا سکیں۔

افغانی ڈاکٹروں کے مطابق یہاں پیدائشی طور پر جسمانی اور ذہنی نقائص کے حامل بچوں کی تعداد میں پریشان کن اضافہ ہو رہا ہے ڈاکٹروں کے مطابق ہم اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ہماری کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ یہاں کی عورتیں اکثر جسمانی اور ذہنی تکالیف میں مبتلا ہوتی ہیں ار غیر قانونی منشیات کے استعمال کی عادی ہونے لگتی ہیں افغانستان میں ریڈ کراس کی انٹرنیشنل کمیٹی کے نمائندے ایک ڈاکٹر کے مطابق پیدائشی نقائص کی بڑی وجہ مسلسل حملوں کا خوف اور سکون کی کمی ہے۔ حالیہ برسوں میں پیدائشی نقائص کے مریض بچوں میں پچاس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہیں چائلڈ ہیلتھ ہاسٹل کو پیدائشی نقائص کے مریض بچوں کا علاج کرتے ہوۓ آٹھ برس ہو چکے ہیں غالباً اس وقت اٹھارہ ہزار سے لے کر بیس ہزار تک مریض موجود ہیں ان کے ساتھ ایک ایسے والد کی بچی بھی موجود ہیں جس کی غربت کی انتہا یہ ہے کہ اسے ہفتے میں ایک دن بھی مزدوری مل جاۓ تو وہ اسے اپنی خوش قسمتی سمجتا ہے۔اس بچی کی ماں کے مطابق میرے دو بھائی اور والدہ جنگ کی نظر ہو چکے ہیں۔ میں نے مسلسل ڈر اور پریشانی سے بچنے کے لئے ممنوعہ ادویات کا زیادہ استعمال کیا ہے۔جس کے اثرات شاید میری بچی پر پڑے ہیں اس ہسپتال میں ایک بستر پر ایک اٹھارہ ماہ کا بچہ بھی ہم نے دیکھا جس کی ٹانگوں کو باندھا گیا تھا کیونکہ پاؤں ہلانے سے اس کے پیٹ سے خون جاری ہو جاتا۔ افغانی ڈاکٹر سمسور صافی کے مطابق پیدائشی نقائص میں روز افزوں اضافے کے کئی اور بھی سبب ہو سکتے ہیں لیکن جنگ،غربت،ہجرت،نفسیاتی عوارض اور ذہنی دباؤ بچوں میں پاۓ جانے والے نقائص کے بڑے اسباب ہیں۔



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160