اخلاقی تعلیم بچوں کی کردار سازی کے لیئے ضروری

Posted on at


عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نا خواندہ لوگ ملک کی ترقی میں رکاؤٹ ہیں، اس لیئے افراد کی تعلیم و ترقی پر خصوصی زور دیا جاتا ہے تا کہ انہیں معاشرے کے کار آمد افراد بنایا جا سکے۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ جتنی کرپشن،جرائم،لوٹ کھسوٹ،فراڈ اور بد اعمالیاں پڑھے لکھے افراد کرتے ہیں۔ان پڑھ افراد اس کا تصور بھی نہں کر سکتے۔ آج جو لوگ طرح طرح کی بد دیانیتیون میں ملوث ہیں،ان کی اکثریت سکولوں کالجوں سے تعلیم یافتہ ہو کر نکلی ہے۔تعلیمی اداروں میں طوطے مینا اور گاۓ بھینس کے سبق تو پڑھاۓ جاتے ہیں۔مگر افسوس اخلاقی تعلیم پر زور نہیں دیا جاتا۔ہم بچوں کو تعلیم دیتے یا دلواتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے مفید افراد بن سکیں،مگر ان میں سے اکثر کالج کے دور سے ہی مختلف جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں اور اسی ملک و قوم کے لیئے ناسور بن جاتے ہیں۔ پڑھے لکھے ہونے کی بنا پر وہ جرائم کے مختلف طریقوں کو ایجاد کرتے ہیں۔ اور قانون شکنی کا موجب بنتے ہیں۔



جو تعلیم فرد کو اللہ تعالیٰ سے نہیں ملاتی،توحید کا تصور واضح نہیں کرتی،اللہ کی حدود میں رہ کر زندگی بسر کرنے کا شعور نہیں دیتی،دینی اخلاق کو نہیں سنوارتی وہ تعلیم نہیں جہالت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نصاب کو مزہبی و اخلاقی ڈھانچے میں ڈھالا جاۓ تا کہ ایسے پڑھے لکھے افراد ہمارے اداروں سے فارگ ہوں، جو اخلاقی روایات و اقدار اور قانون کے پاسدار ہوں۔ ہمارے سکولز میں تلاوت قرآن روزانہ سکول اسمبلی کا بنیادی حصہ ہے، مگر بچے نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا پڑھا ہے۔ اگر صرف ایک آیت کی تلاوت کی جاۓ مگر ترجمہ کے ساتھ تو وہ زیادہ بہتر ہے۔ ہمارے ہاں مدارس میں حفظ قرآن پر اگرچہ فوکس ہوتا ہے مگر قرآن کو سمجھنے پر فوکس نہ ہونے کے برابر ہے۔



بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر اخلاقیات پر مبنی ایسا پیغام دیا جاۓ کہ جسے وہ اپنی زندگی میں اپنا سکیں۔ سکولز میں جہاں بہت سے ادبی مقابلہ جات ہوتے ہیں،وہاں قرآن، سیرت نبوٰیؐ سیرت صحابہ و دیگر متعلقہ عنوانات کے حوالے سے مقابلے کرواۓ جانے کی ضرورت ہے تا کہ طلبہ میں اسلامی فکر بیدار ہو سکے۔ ہم جب تک اپنے طلباء و طالبات کو اپنے شاندار ماضی سے نہیں جوڑیں گے۔ انہیں اپنے اسلاف کے عمدہ کارناموں سے مانوس نہیں کریں گے تب تک ان کے ہیرو اور آئیڈیل یقیناً ایسے افراد ہو سکتے ہیں جو ان کی بے راہ روی کا مزید موجب بن سکتے ہیں ہمیں طلباء کو صحیح معنوں میں مسلمان بنانے کی سعی کرنا ہو گی۔ان کا تعلق اور نسبت معلم اعظمؐ سے استوار کرنا ہو گا۔



آج ہم سب چاہتے ہیں کہ اسلامی کلچر پھر سے جوان ہو جاۓ اور ہم زمانے کے پیچھے چلنے کے بجاۓ آگے چلیں مگر اس کے لیئے ٹوٹے ہوۓ ربط کو پھر سے قائم کرنا ہو گا۔ اسلامی نقطہ نظر کو پورے نظام تعلیم میں اس طرح اتار دینا ہو گا کہ وہ اس کی روح رواں اور اس کا احساس و ادارک بن جاۓ۔اگر ہمارا نظام تعلیم اسلام کے بتاۓ ہوۓ اصولوں اور تعلیمات کے مطابق ہو گا تو ہمیں سائنس، معیشت، ٹیکنالوجی قانون سمیت ہر شعبہ میں ایسے ماہرین میسر آئیں گے جو دنیا کے لیئے مثال ہو گے۔ ہمیں سکولز میں اپنے طلباء کو اسلامی اخلاقیات سکھانی ہوں گی۔ بچوں کو پڑھاتے ہوۓ ہمارے پیش نظر تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہئیے کہ ہم ایسے افراد تیار کریں جو ہماری قومی تہزیب کو سمجھتے ہوں۔ سکولوں میں ضروری ہے کہ بچے کو سکول کے پہلے دن سے ہی اسلام اور اخلاقیات کے بنیادی تصورات سے آگاہی دی جاۓ۔ اسلام جن اخلاقی تصورات اور اقدار کو پیش کرتا ہے انہیں ہر مضمون کے اسباق میں حتیٰ کہ ریاضی اور سائنس تک مختلف طریقوں سے بچوں کے ذہن نشین کیا جانا چاہیئے سکولز میں مختلف مضامین  کی تدریس کے دوران بچوں کو اخلاقیات سکھانے پر فوکس کیا جاۓ۔ ان کے اندر رشوت خوری سے نفرت اور حرام و حلال کی تمیز کا جزبہ پیدا کیا جاۓ ان کے دلوں میں تدریس کے ذریعے جھوٹ،دھوکے دہی،فریب،خود غرضی،نفس پرستی،چوری،جعل سازی،بد عہدی،خیانت،شراب،سود،قمار بازی۔ظلم، نا انصافی اور لوگوں کی حق تلفی سے سخت نفرت پیدا کی جاۓ۔بچوں کی تربیت اس طرح کی جاۓ کہ وہ جس شخص میں بھی اخلاقی برائیوں کا اثر پائیں اسے بری نگاہ سے دیکھیں اور اس کے متعلق برے خیالات کا اظہار کریں۔



ہمارے سکولوں اور کالجوں سے فارغ اگر کوئی شخص معاشرتی اور اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہو تو اس کے اپنے ساتھی اسے لعنت ملامت کرنے والے ہوں نہ کہ داد دینے والے اور ساتھ دینے والے۔ وہ خوبیاں اور نیکیاں جنہیں اسلام انسان کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ بچوں کو مختلف سرگرمیوں کی بدولت ان کی طرف رغبت دلائی جاۓ اور ان کے فوائد سے آگاہ کیا جاۓ۔ بچوں کو بتایا جاۓ کہ یہ خوبیاں ہماری زندگی کا مطلوب ہیں اور انسانیت کی بھلائی انہی کے اندر ہے۔ بچوں کو روز مرہ تدریس میں صداقت و دیانت،امانت و پاس عہد، عدل و انصاف،حق شناسی،ہمدردی و اخوت،ایثار و قربانی، فرض شناسی اور پابندی حدود اور سب سے بڑھ کر ظاہر اور باطن ہر حال میں خدا سے ڈرتے ہوۓ کام کرنے کا سبق دیا جاۓ اور عملی تربیت سے بھی اس امر کی کوشش کی جاۓ کہ بچوں میں یہ اوصاف نشوونما پائیں۔ طلبہ کو اسلامی زندگی بسر کرنے کے طریقوں سے آگاہی فراہم کرنا بھی سکولز کی زمہ داری ہے  



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160