محنت کی عظمت

Posted on at


 


اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوزا ہے۔ زمین کے خزانے بھی  اس کی راہ دیکھتے ہیں۔ سمندروں کی پہنائیوں میں اس کے رزق کے سامان موجود ہیں مگر ان کو حصول کے لیے ایک شرط رکھی گئی ہے کہ جب تک انسان خود محنت و ہمت سے کام نہیں لے گا اسے دنیا کی کوئی آسائش حاصل نہیں ہو سکے گی۔ مثال کے طور پر ایک کسان کو لیجئے جو محنت و مشقت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتا ہے اور دن رات کی جانکاہ سعی وہمت کے بعد بنجر زمین کو سبزہ زار بنا دیتا ہے اس کی پیداوار کا پھل دنیا کھتی ہے اور زندگی مدکراتی ہے۔


 


عام طور پر لوگوں میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ وہ کوئی محنت یا تگ و دو کئے بغیر اپنا کام چاہنے لگتے ہیں اور جب ان کی آ رزو پوری نہیں ہوتی تو بے صبری اختیار کرتے ہیں ایسے انسان شائد اس حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ کامیابی کی منازل تک پہنچنے کے لیے ان تھک کو شش، جدوجید اور ریاضت کی منازل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کی حالت ان کسان کی سی ہوتی ہے جو اپنا کچا پھل بازار میں لا کر رکھ دیتا ہے اور جب لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو اس پر جھنجھلاہٹ طاری ہو جاتی ایسے انسان اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اپنی مرضی کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کے لیے کتنے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر کسی کو اس کی محنت کا صلہ حاصل نہیں یا وہ اپنی مطلوبہ کامیابی سے فورا ہمکنار نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ مایوسی کا شکار ہو جائے، اسے اپنے اپنے حالات اور محنت کا جائزہ لیتے ہوئے جہاں بھی کوئی خامی نظر آئے، اسے دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے۔


 


معمولی کامیابی بھی محنت کی متقاضی ہوتی ہے۔ لہذا غیر معمولی فتح کےلیے غیر معمولی محنت درکار ہوتی ہے۔ عظیم لوگوں کی زندگیوں کے مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجے پرپہنچتے ہیں کہ سیاستدان، فنکار، ادیب، شاعر اور سائنسدان سبھی اپنے عظیم کارناموں تک پہنچنے سے قبل انتہائی دشوار گزار راہوں سے گزرے ہیں۔ قائداعظم ہمارے عظیم رہنما تھے مگر کون ہے جو ان کی جفا کشی، طویل سیاسی جدوجہد اور محنت کا انکار کرے آُ پ نے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر اپنی صحت اور تندرستی تک قربان کر دی۔ ایک عظیم رقاصہ کی مثال لیجئے اس کے جسم کی معمولی حرکات جن پر لوگ جان فدا کرتے ہیں اس کے خون جگر کا شاہکار ہوتی ہیں۔ فن بہر حال خون جگر سے سینچا جاتا ہے۔


 


موسیقی ہو یا آرٹ ہو شاعری ہو یا ادیب ہو۔ بہرحال جان جوکھوں تک کی بازی لگانے کے بعد ہی اس میں عظمت مل سکتی ہے۔ کوئی کارنامہ یوں ہی کارنامہ نہیں کہلاتا۔ اس کی بنیاد بہرحال مضبوط ہوتی ہے، جو سخت کاوش کا نمونہ ہوتی ہے اور اس کی تعمیر میں زندگی بھر کی حاصل کردہ صلاحیتوں کو صرف کرنا پڑتا ہے۔ مغلیہ عمارات جن کی عظمت آج تک مسلم ہے اس وجہ سے باقی ہیں کہ ان کی پختگی اس کے فنکاروں کی محنت کی روشن دلیل ہے۔ بڑے بڑے کھلاڑیوں، باکسروں اور پہلوانوں کو ہی لیجئے۔


 


سردی کی چلچلاتی راتوں میں جب تمام دنیا راحت طلبی میں نرم گرم بستروں کا لطف اٹھا ریے ہوتی ہے یہ بچارے سخت محنت کر رہے ہوتے ہیں۔ امتحان میں اول آنے والا طالب علم ان دنوں اور راتوں میں سردی گرمی بارش آندھی سے بے پوار اپنے کام میں مشغول ہوتا ہے۔الغرض زندگی کا کوئی میدان بھی کیوں نہ ہوا س میں‘‘ کامرانی محنت اتفاق یا تقدیر ’’ سے یوں ہی حاصل نہیں ہو جاتی بلکہ قانون قدرت یہ ہے کہ اس کےلیے سال ہا سال کی تگ و دو اور مسلسل کاوش درکار ہوتی ہے اس کےلیے ضروری ہے کہ انسان کو اپنے مقصد کی سچی تڑپ ہو۔ لگن ہو اور وہ ایک عاشق کی طرح حالات سے بے نیاز اپنا کام کرتا چلا جائے۔ کام ہی ترقی کا زینہ ہے اس میں فلاح ہے اور یہی عظمت کی دلیل ہے۔




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160