دوسری جنگ عظیم!ایشیا کی آزادی اور جاپان۔

Posted on at




دوسری جنگ عظیم میں جاپان کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے، جاپان کے اس جنگ میں شرکت کی وجہ سے مغربی ممالک کمزور ہوئے ، جس کی وجہ سے ایشیا کے بہت سے ملک ان کی غلامی سے آزاد ہوئے، کیا جاپان ایشیا کی آزادی کے لیے لڑا یا نہیں یہ ایک متنازع مسئلہ ہے لیکن جاپان کی وجہ سے بہت سے ممالک آزاد ہوئے جن میں ملائیشیا ، انڈونیشیا، برما، کوریا، ہندوستان پاکستان ،تھائی لینڈاورسنگاپورشامل ہیں، اس جنگ میں جاپان شکست کھا  گیا اور سارا ملبہ جاپان پر ڈال دیا گیا ،  ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ، فاتحین ہی تاریخ لکھتے ہیں، تو ہم  صرف مغرب کی لکھی گئی تاریخ پر اعتبار نہیں کرسکتے،  بہت سے مشہور اور بڑے لوگوں  نے اس بارے میں بات کی ہے ، ان کی یہ باتیں مندرجہ ذیل ہیں۔



ہربرٹ ہوور،امریکہ کا 31 صدر ، پرل ہاربر  امریکہ کے جرمنی پر حملہ کرنے کا ایک پاگل شخص(صدر فرینکلن روزویلٹ) کا  منصوبہ تھا، روزویلٹ کی جاپان کے خلاف مکمل اقتصادی پابندی اور اس کا ستمبر میں  جاپان کے وزیر اعظم کے امن کے منصوبے کا ہتک آمیز انکار  پرل ہاربر  پر حملے کا اہم حصہ تھا، اگر ہم جاپان کو نہ اکساتے وہ کبھی ہم پر حملہ نہ کرتے۔


ہملٹن فش جو کہ ریپبلکن پارٹی کا ایک لیڈر تھا کہتا ہے کہ،امریکی یہ بات سن کر حیران رہ جائیں گے کہ میں نے یہ بات دریافت کی ہے کہ، ہیری وائیٹ ،جس شخص نے جاپان کو امریکہ کی طرف سے وارننگ کا نوٹس جاری کیا وہ ایک روسی جاسوس تھا ، اور امریکی کانگرس میں اس نوٹس کا کسی کو علم نہیں تھا ، جاپان امریکہ کے ساتھ صلح کرنے کی سخت کوشش کر رہا تھا، اس نوٹس کے بعد جاپان کے پاس حملے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ تھا،



امریکہ کے میجر جنرل چارلس ایندریو ولیوبے کہتا ہے ، جنگی جرائم کا ٹوکیو ٹریبیونل  انسانیت کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے، اگر امریکہ بھی انہی حالات میں ہوتا کہ جن میں جاپان تھا تو امریکہ نے بھی وہی کیا ہوتا جو کہ جاپان نے کیا، جاپانی اپنے وطن کے دفاع میں لڑے۔


برما کا پہلا ارل مائونٹ بیٹن کہتا ہے کہ ، اگرچہ  ناقابل شکست جاپانی کو آخر میں شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر  انہوں نے اپنے بعد یہ چیز چھوڑی کے انہوں نے ایشیا سے تمام مغربی اقوام کو نکال دیا۔



فرانس کا صدر چارلس ڈی گاولے کہتا ہے کہ، سنگا پور کے چھن جانے   کا مطلب سفید فاموں کی کالونیوں کا خاتمہ تھا۔


اوون لیٹیمور کہتا ہے کہ ، جاپان نے اپنی بہادری سے یہ کیا کہ مغرب کی کالونیوں کا خاتمہ کر ڈالا،


پنڈت جواہر لال نہرونے کہا کہ ، جاپانیوں نے ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا کہ جس کی وہ ہم سےمعافی مانگیں، اسی وجہ سے ہم سان فرانسسکو امن کانفرنس میں شرکت سے انکار کرتے ہیں اور اس کے امن معائدے کے اوپر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہیں۔


شوبوش چوندورو بوشو، جو کہ ایک  انقلابی تھا اور برطانیہ کے خلاف انڈیا کی آزادی کے لیے لڑا کہتا ہے کہ، انڈیا کی آزادی کے لیے ہماری فوج جاپانی دوستوں کے ساتھ مل کر لڑے گی، چلو دہلی چلیں۔


ملائیشیاکے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد کہتے ہیں کہ ، اگر جاپان پر الزام لگایا گیا تو مغرب کے ہم پر غیر انسانی  غلبہ اور استحصال   کا کون ذمہ دار ہے۔


ملائشیا کے  وزیر خارجہ غزالی شافی کہتے ہیں کہ ، جاپان معافی کیوں مانگے؟ جنگ میں انہوں نے برطانویوں سے چھٹکارا حاصل کیا یا نہیں؟ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے جاپانی فوج کو  بہت جوش سے خوش ٓمدید کہا تھا ، جاپان کے بغیر جنوب مغربی ایشیا کی آزادی ممکن نہیں تھی، اگر ہم جاپان کی قیمتی قربانیوں کا انکار کریں تو یہ آئینے کو پیچھے سے دیکھنے جیسا ہوگا۔



انگکو عبدالعزیز جو کہ ملائیشیا یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے کہتے ہیں۔ جب جاپانی فوجیں ملائیشیا میں داخل ہوئیں تو ہم بہت خوش تھے، اور جب ہم نے برطانوی فوجوں کو شکست کھاتے دیکھا تو   میں ایسے کانپا کہ جس کا مجھے پہلے تجربہ نہیں ہواتھا، جاپانیوں نے تمام مغربی قوتوں کو ختم کردیا جنہوں نے ایشیا کو بہت عرصے سے غلام بنایا ہواتھا، ہم تو امید کھو بیٹھے تھے جاپان نے ہمیں اعتماد اور جذبہ دیا۔


ملائیشا کے سینیٹر راجہ داتو نونگ چک کہتے ہیں کہ ۔ ہم نے خوشی سے جاپانیوں کو خوش آمدید کہا، وہ ہماری آزادی کے لیے بہت کچھ لائے تھے، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ جاپانیوں نے ملائیشیا میں عام لوگو کا قتل کیا  ۔


زین العابدین جو کہ ایک ملائیشا کے تاریخ دان ہیں کہتے ہیں کہ۔ جاپانی قبضے نے ملائیشا کے لوگوں کے دلوں میں آزادی کا بیج کاشت کیا۔


سینی پرامو جو کہ تھائی لینڈ کا وزیر اعظم تھا کہتا ہےکہ۔ ایشیا نے جاپان کی وجہ سے آزادی حاصل کی، جاپان کہ جس نے ہماری ماں کا کردار ادا کیا ، اس نے بہت سے بچے ایشیائی ممالک کی صورت میں جنے لیکن اپنے آپ کو تباہ کرلیا، جس نے ہمیں مغرب کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے کے قابل بنایا، یہ جاپان کی بدولت تھا کہ جس نے ہمیں پیدا کرنے کے لیے اپنے آپ کو مار لیا۔


انڈونیشیا کے وزیر اعظم سکارانو کہتے ہیں کہ ۔ انڈونیشیا نے آزادی کی جنگ ہالینڈ کے خلاف  اس وجہ سے جیتی  کہ اسی رنگ کے جاپانیوں کے اسقدر حوصلے سے لڑنے نے ہمیں اعتماد دیا کہ ہم بھی وہی کچھ کر سکتے ہیں۔



انڈونیشیا کے انفارمیشن  کے وزیر بنگ ٹومو  کہتے ہیں کہ ، وہ ہماری جنگ تھی، وہ ہمیں خود لڑنی چاہیے تھی، لیکن ہم نے سب کچھ جاپان کے کندھوں پر ڈال دیا، اور اس سب نے جاپان کو تقریبا تباہ کردیا ، مجھے افسوس ہے۔


انڈونیشیا کا  فوجیوں کا وزیر سانپاس کہتا ہے کہ، دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سے جاپانی ہمارے ساتھ جنگ کرنے کے لیے  انڈونیشیا میں  رہ گئے ، ہم نے ان کی قبروں کو اعزازات کے ساتھ سجایا ، لیکن انہوں نے ہمیں میڈلوں سے بڑھ کر بہت کچھ دیا۔



مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے مشرق وسطیٰ کی تیسری جنگ میں شکست کے بعد کہا، ایشیا میں جاپان تھا، لیکن عربوں میں کوئی جاپان نہیں ہے۔


ان اقوال کہ پڑھ کر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ جاپان نے ایشیا کی اور اپنی آزادی کی خاطر جنگ لڑی، اگر انہوں نے جنگی جرائم کیے تو مغربی اقوام نے بھی بہت بڑے جرم کیے، ان کو بھی اپنے کیے پر نادم ہونا چاہیے۔


 



About the author

160