علم نور ہدایت ہے

Posted on at


ایک عام انسان کو حصول علم کی اتنی بھی ضرورت ہے۔ جتنی کے اسے زندہ رہنے کے لیے ہوا، پانی اور خوراک کی ہوتی ہے۔ عہد حاضر میں بے علم انسان کی حیثیت جاہل، اجڈ اور گنوار جیسی ہے کیونکہ!انسان ایک کمزور اور بے بس ہستی ہے نہ اس میں پہاڑوں کی سے عظمت پائی جاتی ہے نہ دریاؤں اور سمندروں کا سا جلال نہ آندھی کی تیزی نہ شیر کی سی ہیبت اور نہ ہاتھی گینڈے جیسی طاقت۔ مگر خدا نے ان چیزوں کے بدلے اسے عقل عطاء فرمائی کہ وہ علم حاصل کرے، ورنہ اس دنیا کے فریب و سراب میں بے یار و مددگار بیٹھا رہے گا۔ علم کی خاطر شمع کی طرح پگھلنا چاہیے کیونکہ بے علم انسان تو خدا کو بھی نہیں پہچان سکتا۔اب وہ زمانہ گزر چکا ہے جب کہا جاتا تھا کہ اگر کسی نے تعلیم حاصل نہ کی تو کون سی قیامت آجائے گی۔ لیکن عہد حاضر میں جو فرد بے علم رہ گیا اس کے لیے ہر طرف جہالت کی تاریکیاں ہیں اور وہ حیوان سے بھی بد تر ہے۔ دنیا میں بھی اس کی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی کیونکہ خدا نے قرآن مجید میں علم کی اہمیت پر بہت زوردیا ہے اور نبی اکرمﷺ کا بھی ارشاد مبارک ہے۔


‘‘بچپن سے موت تک علم حاصل کرو’’۔


 


ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آج سے چودہ سو سال قبل پیغمبر اسلام نے علم کی اہمیت پر اتنا زور دیا ہے تو موجودہ دور میں جب کہ انسان علم کے بغیر خود کو نہیں پہچان سکتا تو اس وقت حصول علم کی اہمیت کتنی ہو گی۔ عہد حاضر میں جب صحیح و غلط، حق و باطل، نیکی و بدی آپس میں گل مل گئے ہیں تو انسان علم کی بدولت ان میں بخوبی تمیز کر سکتا ہے۔ علم ایک نور ہے جس کے حصول کے بغیر گزارا نہیں علم ایک ایسا نور ہے۔ جو انسان کو جہالت کی تاریک گڑھوں سے نکالتا ہے۔اس سے انسان کی چشم بصیرت روشن ہوتی ہے۔ علم سے اطوار شائستہ اسلام اور اخلاق پاکیزہ بن جاتے ہیں اور دل و دماغ کی خوابیدہ قوتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ علم کی بدولت انسان انسان ہے ورنہ وہ جانور سے بھی بدتر ہے۔عہد حاضر میں حصول علم کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ موجودہ دور ترقی پذیر دور ہے اور اس میں ہر شخص سائنس کی دوڑ میں آگے نکلنا چاہتا ہے اور علم کی بدولت ہم قدرت کے سر بستہ راز معلوم کر سکتےہیں۔ اس کی بدولت وسیع و عریض صحراؤں کو گلزار بنا سکتے ہیں، دریاؤں پر پل باندھ سکتے ہیں۔ پہاڑوں میں سے راستے نکال سکتے ہیں سمندروں کو عبور کر سکتے ہیں۔


 


علم کی بدولت آج دنیا کی تمام وسعتیں انسان کے سامنےسمٹ کر رہ گئی ہیں یہ علم کی برکت ہے کہ آج ہم ہواؤں میں اڑ سکتے ہیں۔ آگ سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ سمندروں کی سطح کے نیچے سفر کر سکتے ہیں۔ علم ہی نے ہمیں چاند تک پہنچنے کی جرأت دی علم کے بغیر ان میں سے کوئی ایک بھی ممکن نہیں۔ موجودہ دور میں انسان دولت، طاقت، حکومت ان سب کے پیچھے بھاگ رہا ہے حالانکہ علم کو نظر انداز کر کے وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ آج کل کچھ والدین اپنے بچوں کو بچپن ہی سے محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔ کہ وہ دولت کمائیں تاکہ وہ خوشحال ہو جائیں کیونکہ یہ نا ممکن ہے کیونکہ دولت چوری ہو سکتی ہے، ختم ہو سکتی ہے لیکن علم ایسا خزانہ ہے جسے جتنا زیدہ خرچ کیا جائے، اتنا بڑھتا ہے۔ اس خزانے کو نہ کوئی لوٹ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی چرا سکتا ہے ۔ اسے نہ آگ کے شعلے جلا سکتے ہیں۔


 


موجودہ ترقی یافتہ دور میں علم کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ اس دور میں بے علم انسان کو کسی زمرے میں نہیں رکھا جاتا۔ بے علم انسان کی مثال ان مردوں جیسی ہے جسے معاشرہ بھی قبول نہیں کرتا۔ آج جاپان اور امریکہ علم کی بدولت ہی صف ااول میں ہیں۔اگر ہم نے علم کی قدر نہ کی تو زمانہ ہم سے روٹھ جائے گا۔ دولت اور حکومت ہم سے منہ موڑ لیں گی اور ہم خس و خاشاک کی طرح بحر زندگانی میں بے یارو مددگار بہتے  رہپں گے۔ قرآن مجید میں ہے ‘‘ ہم نے تمہارے لیے زمین میں خزانے دفن کر رکھے ہیں۔’’ ہم ان کا سراغ لگا کر انہیں تبھی حاصل کر سکیں گے جب صھیح معنوں میں علم حاصل کریں گے۔ جو ایک عظیم طاقت ہے۔ خدا نے اس زمین پر رہنے کا حق بھی اس کو دیا ہے جو عالم ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ علم انسان کو اس زمین پر رہنے کا حق بھی نہیں دیتا۔ موجودہ دور میں زیادہ عزت وہی پائیں گے جو زیادہ علم حاصل کریں گے۔


 


علم کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ارسطو، سقراط، امام غزالی زندہ جاوید ہیں۔ اگر ہم بھی اپنے نام کو زندہ جاوید دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں علم حاصل کرنا ہو گا۔ورنہ ناکامیوں اور جہالت کے تاریک گڑھے منہ کھلے للچاتی ہوئی نظروں سے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔


 



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160