میرا نصب العین

Posted on at


ہر شخص اپنی زندگی میں اپنے لیے نصب العین کا تعین کرتا ہے۔ بے مقصد زندگی گزارنے والے شخص کی مثال ایک بحری جہاز کی سی ہے، جو کھلے سمندر میں آ چکا ہو مگر اسے منزل مقصود کی خبر نہ ہو۔ زندگی ایک خوشگوار سفر ہے لیکن ان لوگوں کے لیے نہیں جو شتر بے مہار کی طرح جیتے ہیں اور زندگی کے دن جوں تو ں کر کے پورا کرنے کے بعد دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ یہ اسے لوگوں کے لیے طرب انگیز اور کیف پرور ہے جو اپنے روز و شب ایک مخصوص مطمع نظر کے تحت بسر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے زندگی کا ہر لمحہ ایک خاص نصب العین کے مطابق گزرتا ہے اور وہ بجا طور پر روشنی کے ہم سفر کہلاتے ہیں۔


 


اپنے نصب العین کے انتخاب کے لیے میرا زاویہ نظریہ بدلتا رہا ہے۔ کبھی میرا دل چاہا کہ میں بی ایس کرنے کے بعد اچھی نوکری کرونگا اور اپنی زندگی آرام دہ گزارونگا اور کبھی میں نے سوچا کہ میرے ملک کے ڈاکٹروں اور انجینئروں کی بے حد ضرورت ہے کہ یہاں طرح طرح کہ امراض کی کثرت ہے اور طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ پھر سائنس کے اس ترقی یافتہ دور میں ملک میں صنعت و حرفت اور مشینری کے نت نئے پروجیکٹ پر کام کرنا ہے۔ لہٰذا ڈاکٹر یا انجینئر بنوں گا۔  یوں آمدنی بھی معقول ہو گی اور ہم وطنوں کی نگاہ میں بھی مجھے با وقار مقام حاصل ہو گا۔ کبھی میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ میں وکیل بنوں گا۔ قانون کے اصلحے سے لیس ہو کر حق و انصاف کا پرچم بلند کروں گا مظلوموں کی داد رسی کروں گا اور ملک و ملت کی خدمت کروں گا۔ مگر میں نے اس خیال کو اس لیے ترک کر دیا کہ اکبر کا ایک طنزیہ شعر یاد آ گیا۔


   پیدا   ہوئے   وکیل    تو   شیطان   نے   کہا


لو   آج   ہم   بھی   صاحب   اولاد   ہو   گئے


 


اپنے نصب العین کے انتخاب کے سلسلے میں میں اسی گورکھ دھندے میں الجھا ہوا تھا کہ ایک روز قرآن پاک کی تلاوت کے دوران میں حضرت ابراہیم کا واقعہ نظر سے گزرا۔


‘‘جب رات کی تاریکی چھا گئی تو انہوں نے (ابراہیم) نے ایک ستارہ دیکھا تو فرمایا، یہ میرا رب ہے۔ تاہم جب وہ غروب ہو گیا تو فرمانے لگے کہ میں غروب ہونے والوں سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا۔ یہ میرا رب ہے۔ سو جب وہ غروب ہو گیا تو فرمایا کہ اگر میں اسے اپنا رب مان لیتا تو کتنا گمراہ ہو جاتا۔ پھر جب آفتاب درخشاں کو دیکھا تو آپ نے فرمایا، بس یہ میرا رب ہے کہ یہ تو سب سے بڑا ہے تاہم جب وہ بھی افق کی گود میں اتر گیا تو آپ پکار اٹھے تو میں اپنی اس طاقت ور ہستی کی طرف اپنا رخ کرتا ہوں جس نے آسمانوں۔ زمین (اور تمام مظاہر) کو تخلیق کیا ہے۔’’


 


اس قصے کا پڑھنا تھا کہ میری نگاہوں میں روشنی اتر آئی اور میری قوت فیصلہ مستعد ہو گئی۔ اچانک ایک نئی سوچ نے میرے تمام خیالات پر لکیر پھیر دی اور اس واقعے کے حوالے سے میں نے بھی یہ سوچا کہ وہ کون سی عظیم شخصیت کہ جو بڑے بڑے سائنسدان، لیڈر، ڈاکٹر، افسر اور انجینئر پیدا کرتی ہے۔ اور ان کے خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کر کے بروئے کار لاتی ہے۔ اس خیال کا ذہن میں آنا تھا کہ مجھے اپنے قابل تکریم اساتذہ یاد آ گئے، جنہوں نے میرے دل و دماغ کو تو علم سے منور کیا۔ یہی وہ بزرگ ہستیاں ہیں جو مخلوق خدا کو زندہ رہنے اور کامیابی زندگی کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہے جو قوم اور معاشرے کے سچے معمار ہیں۔ انہی کی جدوجہد سے تہذیب انسانی کو فروغ حاصل ہے۔ یہ اساتذہ ہیں جن کی کاوشوں سے انسانی تمدن کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ فکر انسانی کے باغ میں رنگا رنگ پھول کھلتے ہیں، اخلاقی اقدار کی نشونما ملتی ہے اور نسل آدم تعمیر حیات کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔


رسول آخرالزمانؐ نے فرمایا۔


‘‘ مجھے دنیا میں انسانوں کی رہنمائی کےلیے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ’’


 


آپؐ ہی نہیں، تمام انبیاء اس الوہی فریضے کی انجام دہی کے لیے ہی دنیا میں تشریف لاتے رہے۔ چنانچہ اساتذہ ایسی خدمت سرانجام دیتے ہیں جو انبیاء و اولیاء کا شیوہ ہے اور یہ انسانیت کی ایسی خدمت ہے جس کے احسانات وہ اب تک فراموش نہیں کر سکتی۔


چنانچہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں استاد بنوں گا اور اپنے ہم وطنوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے انہیں باشعور انسان بنانے کی کوشش کروں گا تاکہ وہ مہذب قوم کے افراد کہلا سکیں۔ اگرچہ  معلمی کا پیشہ ملی لحاظ سے منفعت بخش نہیں تا ہم میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے نام پر اقتصادی مطالبات کو ثانوی حیثیت دوں گا۔ میرے ضمیر نے فیصلہ دے دیا ہے کہ معمولی سے ذاتی فائدے کو نسل انسانی کے وسیع تر مفاد پر قربان کر دینا کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔


 


 



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160