آثار قدیمہ پر تحقیق کی دعوت

Posted on at


 

قرآن پاک میں ایسی آیات ہیں جو مظاہر فطرت کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتی ہیں قرآن پاک ہمیں ان مظاہر فطرت کی طرف اشارہ اور تحقیق کی دعوت دیتا ہے ہمارے تجسس کو ابھارتا ہے اور راہ ہدایت کی طرف بلاتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے اس سے بھی انکار نہیں کہ مطاہر فطرت کے بارے میں قرآن پاک آیات مبارکہ عمومی نوعیت کی ہیں تاہم ایسی ہر آیت میں کچھ ایسے الفاظ یا پیرائے بھی اختیار کئے گئے جو بہت واضح انداز میں کسی خاص نکتے کسی خاص موضوع کی طرف متوجہ کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں

آثار قدیمہ پر تحقیق کی قرآنی دعوت بھی اسی مخصوص انداز میں ہے

ترجمہ: کیا ان کی رہبری اس بات نے بھی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی بستیاں ہلاک کردی جن کے رہنے سہنے کی جگہ پر یہ چل پھر رہے ہیں یقینا اس میں عقل مندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں (سورت طہ آیت ۱۲۸)

ترجمہ: تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گزر چکے ہیں سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو (آسمانی تعلیم)کے جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا(سورت آل عمران ۱۳۷)

ان آیات مبارکہ میں قرآن پاک کے زریعے اللہ تعالی نے ہمین دعوت دی ہے کہ ہم زمیں میں چلیں پھریں اور دیکھیں کہ ہم سے پہلے گزری ہوئی اقوام کا (جو نافرمانی کی مرتکب ہوئیں )کیا انجام ، کیا حشر ہوا بظاہر ایسا لگ رہا جیسے زمیں میں چلو پھرو کے زریعے اللہ تعالی ہمیں سیرو سیاحت کے تصور کے ساتھ (تفریح) کو جس انداز سے وابستہ کرلیا ہے اسکی بدولت وقت کی بربادی زیادہ ہوتی ہے اور کام کی بات کم ہی ہو پاتی ہے

قرآن پاک کے نزدیک (زمیں پر چلو پھرو )کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ ماضی میں اس زمیں پر رہنے والی اقوام کے آثار اور باقیات کو دیکھا جائے ، کھنگالا جائے اور آخر کار انکا انجام دیکھ کر عبرت حاصل کی جائے یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں اس کرہ ارض کے سینے پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں چھوتی بڑی تہذیبوں اور تمدنوں نے حکمرانی کی ہے جن میں سے بہت کم کے آثار اض ہمیں دستیاب ہیں

علم آثار قدیمہ جسکو آج ہم ( آثاریات )کے نام سے جانتے ہیں یہ بشریات کی ایک شاخ ہے جسکا مقصد مختلف انسانی تہذیبوں کے مابین تسلسل ، تبدیلی مماثلت اور اور فرق کی وضاحت اور انہیں صورت دینا ہے ۔    



About the author

sss-khan

my name is sss khan

Subscribe 0
160