ایک سلطان

Posted on at


ایک فلسفہ زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے ”کہ سلطنت صرف اسی کی ہوتی ہیں جس کے بازو میں دم اور تلوار میں خم ہو” ان دونوں چیزوں کے بغیر کوئی بھی سلطان اپنی سلطنت کو زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکتا۔


ازل سے لے کر اب تک لا تعداد سلطنتیں قائم ہوئیں اور ان پر عظیم سلطانوں نے سلطنت کی۔اور اپنی طاقت کا


لوہا منوایا۔ اگر ہم نظر دوڑائیں تو ایک نام چنگیز خان بھی ہمارے سامنے آتا ہے۔


چنگیز خان کا اصل نام تیمیو جن تھا۔جبکہ چنگیز خان اور خاقان اعظم اسکے القابات تھے۔ایک روایت کے مطابق جب چنگیز خان پیدا ہوا تو اس کے ہاتھ میں گوشت کا لوتھڑا تھا۔ کو کہ اس کے ظلم اور بربریت کا عکاس تھا۔چنگیز خان منگولیہ کے ایک چھوٹے قبیلے میں پیدا ہوا۔قبیلہ کا سردار لیسو گئی اس کا باپ تھا۔۱۳ برس کی عمر میں چنگیز کا باپ مر گیا۔اور وہ کم عمری میں ہی میں اپنے قبیلے کا سربراہ بنا دیا گیا۔ چنگیز کی کم عمری اور نا تجربی کاری کو دیکھتے ہوۓ دوسرے قبیلے کے لوگوں نے ان کے قبیلے پر چڑھائی کر دی اس کے اپنے قبیلے کے لوگ جان بچانے کی خاطر ان سے جا ملے۔اور چنگیز کو بھاگنا پڑا،کافی دور تک اس کا پیچھا بھی کیا گیا۔تاہم وہ بچ نکلا۔اور اپنے باپ کے دوست کا پاس جا پہنچا۔وہ بھی ایک سردار تھا۔اس نے چنگیز کا نہایت شاندار استقبال کیا۔اسکو اپنے دربار میں خاص مقام دیا۔اور اپنی بیٹی بورتی کی شادی چنگیز سے کرا دی۔



چنگیز اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا۔ویسے تو چنگیز نے تو بہت شادیاں کیں اور اس کی اولاد بھی کافی تھی۔تاہم اس کی وارث صرف بورتی ہی کی اولاد ٹہری۔بورتی سے چنگیز کے چار بیٹے تھے۔جب چنگیز تجربہ کار ہوا تو اپنے سسر کی فوج لے کر اپنا چھینا ہوا قبیلہ دوبارہ حاصل کیا اس طرح جو لوگ اسے چھوڑ کر گئے تھے وہ بھی لوٹ آۓ۔مگر اب چنگیز صرف یہیں نہیں رکا کیوں کہ جوانی کا خون اس کے بازؤں میں بل مار رہا تھا۔ اس نے اپنے دشمن قبیلوں پرچڑھائی کر کے ان پر قبضہ کر لیا۔ اور کچھ دوسرے ڈر کے مارے خود ہی اس کے ساتھ شامل ہوگئے اور دیکھتے دیکھتے پورے منگولیا پر چنگیز خان کا ڈنکا بجنے لگا۔چنگیز خان جو کہ سلطان تھا حکمران نہیں تھا اسی لیئے اس کو معلوم تھا کہ سلطنت کو قائم رکھنے کے لیئے کیا چیز ضروری تھی۔



اس کے نزدیک غدار کی سزا موت تھی۔جاسوسی کا عملہ نہایت مستعد اور چاک و چوبند تھا۔اپنے لوگوں کے ساتھ اس کا سلوک نہایت مساویانہ تھا۔تا ہم اپنے دشمنوں اور غداروں کے لیئے وہ بپھرے ہوۓ شیر سے کم نہ تھا۔انہی اصولوں کے تحت اور اپنے لوگوں کے اعتماد کی وجہ سے چنگیز نے دنیا میں وہ تہلکہ مچایا کہ جس کو دہرانے سے انسانی تہذیب کانپ اٹھتی ہے۔وہ جہاں بھی جاتا خون کی ندیاں بہادیتا۔کسی بھی ملک یاعلاقے میں سواۓ ہنرمند اور کارآمد لوگوں کے کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑتا تھا۔لوگوں کو مار کے اور ان کے گھروں اور سامان کو جلا کے اسے اور اس کی فوج کو شراب سے زیادہ نشہ ملتا تھا۔



اس کی فوج کے سپاہی لوگوں کا قتل عام کرنے کے بعد ان کے کھوپڑیوں کے مینار بناتے تھے اور ان کے ارد گرد رقص کر کے اپنی فتح کا جشن مناتے تھے۔سکندر اعظم کے بعد چنگیز خان دنیا کا عظیم فاتح تھا اس نے تھوڑے ہی عرصے میں دنیا کا بہت بڑا علاقہ اپنے قبضہ میں کر لیا تھا۔چنگیز ۷۳ برس کی عمر میں وفات پائی۔اس کی وفات پر ۶۰ خوبصورت حسین و جمیل لڑکیوں کو ذبح کیا گیا تا کہ وہ اگلے جہاں میں جا کر خان کی خدمت کریں۔چنگیز کو اس کی وصیت کے مطابق ایک نا معلوم مقام پر دفنایا گیا تا کہ کوئی بھی اس کی لاش کو نکال کر اسکی بے حرمتی نہ کر سکے۔اور یوں اس کی موت کے ساتھ ہی ظلم و بربریت کا ایک باب اختتام پذیر ہوا۔



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160