فلاحی ریاست ایک ایسی ریاست کا تصور ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک انسان خیرات دینے کے لیے نکلے مگر اسکو ایسا کوئی بھی نہ ملے جو اس سے خیرات لے سکے ایسی ریاست ہو کہ جس میں خیرات لینے والا کوئی نہ ہو ہر انسان محفوظ اور مطمئن ہو اسلامی تصور ہے اور تاریخ اسکی گواہ ہے کہ یہ تصور ریاست قرآن مجید اور فرقان حمید نے قائم کیا اور ہمارے دین اسلام نے اس دنیا کے لیے پیش کیا اور مسلمانوں نے اس راہ میں عملی اقدامات کیے اور اس دنیا کو ایسا نظام مملکت عطا کیا کہ جس نے اس دنیا میں امن وسلامتی کی بنیاد ڈال دی
اسلامی فلاحی ریاست نے اخلاق اور انسانیت کی ساری راہیں پیدا و ہموار کر دی اسلامی تصور مملکت ایک ایسی فلاحی مملکت ہے جو خادم خلق مملکت ہو ایسی ریاست اور مملکت اسکی زمہدار ہے کہ اس میں عوام الناس کو دینوی اور اخروی دونوں قسم کی فلاح حاصل ہو ایک طرف وہ علم ودین کی تعلیم و ترویج کے لیے زمے دار ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا کرتی ہے تو دوسری طرف وہ قیام امن و انصاف ، معاشرتی و معاشی عدل اور غریبوں کی معاشی کفالت کے لیے اپنے وسائل کا استعمال کرتی ہے
ایسی فلاحی مملکت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں میں انسانوں سے محبت اور خلوص کو قائم کیا جائے اسی طرح ایک فلاحی مملکت کے قیام کے لیے اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ زمین اور تمام وسائل فطرت اللہ تعالی کی دین ہیں اور اللہ تعالی ہی ان کا حقیقی مالک ہے ہمارے پیارے رسولﷺ نے انسانی سوسائٹی کے لیے چار بنیادی حقوق رکھے ہیں ۱۔ رہنے کے لیےگھر ۲۔ تن ڈھکنے کے لیے کپڑا ۳۔پیٹ بھرنے کے لیے روٹی ۴۔پانی اسلامی تصور کے مطابق ایک فلاحی ریاست کی زمھداری کہ وہ ان چار بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکے
اسلامی فلاحی ریاست انسان کو اچھے اخلاق پروان چڑھانے کے اور معاشی آزادی کے تحفظ کے لیے اسلام انسان کو انفرادی ملکیت کا حق دیتا ہے مگر حد قائم کرتا ہے اس ملکیت کو آلہ ظلم نہیں بننے دیا جائے ۔