برمودا ٹرائے انگل حقیقت یا افسانہ

Posted on at


 


اگر آپ دنیا کا نقشہ دیکھے تو آپ اس عجیب نام کی جگہ کو نقشہ پر  کہیں  بھی نہیں دیکھے گے پر کچھ لوگوں کے نزدیک برمودا ٹرینگل یا پھر ڈیول ٹرینگل ایک اصل جگہ ہے جہاں نجانے کتنے بحری جہاز، ہوائی جہاز اور لوگ گئے تو ہیں  پر واپس نہیں آۓ ان ک ساتھ کیا ہوا وھو کہاں گئے آیا وہ زندہ ہیں  یا نہیں کوئی نہیں جانتا کچھ لوگوں کے مطابق برمودا ٹرینگل دوسری دنیا کا راستہ ہے اور اس راستے سے دوسری دنیا کی مخلوق زمین پر آتی ہے اور تو اور کچھ لوگ تو اسے دوزخ کا دروازہ بھی کہتے ہے 



   برمودا ٹرائے انگل اصل میں ہے کیا؟؟؟؟  یہ علاقہ امریکی ریاست میامی کے پاس بحر اوقیانوس کے مغربی حصہ میں ہے اس کا قل رقبہ ١.٥ کروڑ مربہ میٹر ہے. پہلی دفعہ ١٩٦٤ میں جب ایک میگزین نے اپنے اک کالم نے  "برمودا ٹرینگل " کا لفظ استمال کیا اور بحری جہازوں کے گم ہونے کے حیرت انگیز واقیات کو قلم بند کیا  تب لوگوں نے اس طرف توجہ دی اور  پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی اس عجیب و غریب جگہ میں تجسس بڑھتا ہی چلا گیا



 


اگرچہ بہت سے سائنسدان برمودا کو اک منت  گھڑت کہانی بتاتے ہے اور ان کی ریسرچ کے مطابق کشش ثقل کے علاوہ یہاں ایسی کوئی چیز نہیں جس کی وجہ سے کہا جائے کہ ہم کہ سکے کے یہاں معمول کے خلاف کچھ ہوتا ہے پر اگر ہم ماضی کے واقیات پر نظر دھراہے تو لگتا ہے دال میں  کالا ضرور ہے جیسا کے امریکی نیوی کا طیارہ فلائٹ ١٩ کی پرسرار گشدگی اور اسی دن طیارے کو ڈھونڈنے جانے والے  پی بی ایم مرینر کا اپنے ١٣ کریو ممبر کے ساتھ گم ہو جانا یا پھر یو ایس ایس کا ٣٠٢ بندوں کے ساتھ اسی جگہ پر  کھو جانا ہو یہ سب واقعات برمودا ٹرائے انگل  میں ہونے والی عجیب حرکات کا پتا دیتے ہے 



اس جگہ کے حوالے سے حل چل تب مچی جب برمودا ٹرینگل سے زندہ بچ جانے والے انسان بروس مرگون کا انٹرویو اے بی سی چننیل پر نشر کیا گیا بروس کے  مطابق وہ اور اس کی بیٹی جہاز پر برمودا ٹرائے انگل پر اڑ رہے تھے کے اچانک وہ ایک دھند  میں داخل ہو گہے وہ دھند مقناطیسی قسم کی تھی اور ہمیں  کچھ وقت کے لئے نہ آسمان نظر آیا نہ زمین پر اس نے کسی طرح سے جہاز کو اس دھند میں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے بروس کہتے ہے کہ وہ آج بھی اس دن کو نہیں بھول پاے پر اصل حقیقت کوئی نہیں جانتا کہ برمودا میں ہونے والے واقعات کو کسی اور مخلوق کی کارستانی قرار دیا جائے یا پھر انسانوں کی اپنی غلطی کا نتیجہ 



About the author

160