جب وہ کسی کی بیوی بنتی ہے تب تک اسکی ذہنیت پختہ ہو چکی ہوتی ہے اور اس کی ذمہ داریوں میں بھی کافی حد تک اضافہ ہو جاتا ہے اور ایسے میں اگر کوئی مشکل آن پڑے تو ایک خواندہ عورت ہی اپنے شوہر کو درست مشورہ دے سکتی ہے۔ اسکو درست فیصلہ کرنے میں اس کی مدد کر سکتی ہے اسکی ہمت بندھا سکتی ہے۔
اور پھر جب وہ ماں بنتی ہے جو کہ اسکے لیئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔ ایسے میں اسے نہایت صبر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اور جب اولاد ہوتی ہیں تو اس کی درست سمت مین پرورش کی ذمہ داری اس پر آن پڑتی ہے۔ایسے میں عورت کو ان کٹھن حالات کا سامنا کرنے کے لیئے اور اس میں سرخرو ہونے کے لیئے تعلیم نہایت مدد فراہم کرتی ہے۔اور اس کے اندر برداشت پیدا کرتی ہے۔اور اپنی اولاد کی اچھی پرورش کر کے اسے معاشرے کا ایک کارآمد شہری بناتی ہیں۔ جس سے ایک مستعد،تندرست اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد بھڑتی ہے۔اسی طرح آجکل کی عورتیں گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ملک میں حکومتی،صنعتی،تعلیمی اور مختلف اداروں میں اپنی زمہ داریوں کو نہایت خوش اصلوبی سے نبھا رہی ہیں۔
عورت رب کائنات کی ایک نہایت کوخوبصورت تخلیق ہے۔اور جب یہ تخلیق اپنی زمہ داریاں اچھی طرح نبھاتی ہے تو یہ اس کائنات میں خوبصورتی کا باعث بنتی ہے اور قابل فخر ٹھرتی ہے اسکے برعکس اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طرح ادا سے نہ کر پائی یا کسی قسم کی کوتاہی کی مرتکب ٹھری تو یہ شرمندگی اور زلالت کا باعث بن سکتی ہے۔
اسی لیئے اس شرمندگی اور ذلالت سے بچنے کے لیئے ہمیں چاہیئے کہ ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں تاکہ وہ اچھے طریقے سے اپنے فرائض کو پہچان سکیں اور ان کی ادائیگی کے لیئے بہتر حکمت عملی مرتب دے سکیں۔اور اپنے معاشرے کے لیئے زہمت کے بجاۓ بن سکیں۔