سماجی برائیاں اسباب اور سدباب(حصہ دوم

Posted on at


ایک بنیادی خرابی جو معاشرے میں ہر برائی کو جنم دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم سب دوسروں پر تنقید کرتے ہیں مگر اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔دوسروں کی برائیوں کو اچھالنا ہمارا روزمرہ ہے مگر اپنے نقائص اور اپنی اصلاح کی طرف سے ہماری آنکھیں بند ہیں

ہم نے ہر رخ کے مقابل آئینہ رکھا مگر

ایک خود کو آئینے کی آنکھ سے دیکھا نہیں

اسی طرح ہم کوئی سی زمہ داری بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ذمہ داری سے فرار کا نتیجہ ہے کہ آج زندگی کا حسن ختم ہو گیا ہے اور زندگی ایک ایسا ویرانہ بن گئی ہے جہاں بگولوں کا راج اور کانٹوں کی حکمرانی ہے۔ ہر شخص دووسرے کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔ اپنی ذمہ داری کو ٹالنا ہمارا معمول بن گیا ہے ۔ آنکھیں بند کرنے سے حقیقت میں کوئی فرق نہیں آتا وہ بہرکیب حقیقت ہی رہا کرتی ہے ۔ ضرورت حقیقت سے آنکھیں چرانے کی نہیں بلکہ آنکھیں چار کرنے کی ہے۔ معاشرے میں اس وقت تک اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک انفرادی طور پر ہم سب اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہ کریں۔ حکومت کےقوانین بھی اس وقت تک موثر نہیں ہوتے جب تک اصلاح ذات کا جذبہ ہمارے دلوں سے نہ ابھرے۔

علامہ اقبال نے نوجوان مسلمان کو تدبر کا سبق دیتے ہوئے یہ احساس دلایا تھا کہ وہ اس عظیم قوم کا فرد ہے جس نے ایک دور کی تاریخ کو ہلایا اور رخ بدلا تھا۔گویا اسلام ایک انقلابی تحریک ہے اور مسلمان معاشرے کی برائیوں کے خلاف ہر لمحہ جہاد کرنے والا کردار ہے۔ مگر آج ہمارے پاس صرف گفتار کا حسن ہے، کردار کی خوبی نہیں۔ نتیجہ یہی ہے کہ ہم لوگ ذلت وزوال سے دو چار ہیں۔

ہم نے زوال پزیر قوموں کی سبھی ذمہ داریاں قبول کر لی ہیں ہم نے اپنے ماضی کو فراموش کر دیا ہے اور اپنے حال سے بے نیاز ہیں۔ایسی قوموں سے مستقبل کی کی رعنائی روٹھ جایا کرتی ہے ۔ جناب مختار  مسعود کے الفاظ میں"جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہے جائیں ، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے ، ملک کی بجائے مفاد اور ملت کی بجائی مصلحت عزیز ہو اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے تو صدیاں گم ہو جاتی ہیں"

آج اپنے معاشرے کے کسی شعبے پر نظر ڈالیئے ، ہر جگہ بدنظمی اپنے کمال پر نظر آئے گی۔ رشوت،اقربا پروری، دھوکہ اور بے ایمانی اس قدر عام ہے کہ دوزخ کے لپکتے ہوئے شعلے بھی ہمیں اس خوئے بد سے روک نہیں رہے ۔ ہم دوسروں کے حق کو غضب کرنے کو بھی حسن اخلاق  کا ایک دل آویز زاویہ سمجھتے ہیں۔ ہماری نگاہوں سے حیا ، دلوں سے خوف خدا اور زبانوں سے ادب کے بول رخصت ہو گئے ہیں ۔برائیاں خوشنما لباس میں جلوہ گر ہیں۔

پس اگر ہم دنیا اور آخرت کی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ان تمام خامیوں کو دور کرنا  ہو گا اور ان تمام سماجی برائیوں کو ختم کرنے کا بہترین حل یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنی اصلاح کریں اور  پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف توجہ دیں، اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔

 



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160