ہیتھر بار افغانستان میں خواتین کے حقوق اور ڈیجیٹل لٹریسی پر

Posted on at

This post is also available in:

ہیتھر بار افغانستان ریسرچر ہیں ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈویژن میں۔ ہیومن رائٹس میں شامل ہونے سے پہلےانہوں نے افغانستان اینٹی کرپشن اور کریمنل جسٹس پروگراموں کو چلایا اقوام متحدہ کے دفتر کے۔ یو این ڈویلپمنٹ پروگرام کے افغانستان دفتر کے منشیات، جرائم، انصاف اور انسانی حقوق پورٹ فولیو پر۔

ایف اے: کیا آپ ہمیں اپنی ذات اور اپنے پس منظر کے بارے میں بتا سکتی ہیں؟

 

ایچ بی: میں ایک وکیل ہوں اور بنیادی طور پر الاسکا سے ہوں۔ لاء سکول کو جانے سے پہلے میں نے  نیو یارک سٹی میں ایک ہوم لیس شیلٹرمیں کام کیا، اور تب قیدیوں کے حقوق کی وکیل کی حیثیت سے لاء سکول کے بعد سات سال کام کیا۔2005 میں میں نے اقوام متحدہ میں شمولیت اختیار کی اور افغانستان بھیجے جانے سے قبل تقریباَ دو سال اقوام متحدہ کے ساتھ وسطی افریقہ میں گذارے۔ میں نے افغانستان میں دوسال گذارنے کی توقع کی تھی، لیکن میں اپنی ذات سے اختلاف نہ کر سکی۔

 

ایف اے: کسی چیز نے آُپ کو ہیومن رائٹس واچ اور بعد میں افغانستان میں کیریر تلاش کرنے کے لیئے متاثرکیا؟

دراصل افغانستان پہلے آیا اور ہیومن رائٹس واچ بعد میں۔ میں 2007 میں یو این ڈی پی کے ساتھ افغانستان آئی، اور2009 میں میں یو این ڈٰی پی سے یو این او ڈی سی کی طرف گئی، ابھی تک افغانستان میں ہوں۔ تب ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ کام کرنے کے لیئے اپلائی کرنے کا موقع آیا۔ میں اس نوکری کے لیئے بہت بے چین تھی کیونکہ میں حقیقت میں ہیومن رائٹس واچ جو کام کرتی ہے اس کو پسند کرتی تھی، یو این میرے کام کرنے کے لیئے ایک مشکل جگہ تھی۔ میں ایک موقع چاہتی تھی ہیومن رائٹس کے متعلق بے باک ہونے کے لیئے بتقابلہ آپ اقوام متحدہ پر ہو سکتے ہیں، اور ایک چھوٹی آرگنائزیشن میں کام کرتے ہیں۔

ایف اے: طالبان کے خاتمے کے بعد افغانستان میں خواتین نے کن کن مشکلات کا سامنا کیا؟

 

ایچ بی: وہاں پر بہت سی مشکلات تھیں۔ یقیناَ وہاں پر بہت سے مواقع ہیں،لیکن میرے خیال میں افغانستان میں خواتین نے سخت راستہ سیکھ لیا ہے کہ انہیں کچھ بھی نہیں دیا جائیگا۔ انہیں نئے حقوق اور نئے مواقع کے ہر انچ کے لیئے لڑنا پڑیگا۔ اور وہ ایسا کر رہی ہیں لیکن یہ مشکل راستہ ہے اور اسے حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہاں پر اہم چیمپیئنز ہیں افغان گورنمنٹ میں اور افغان پارلیمنٹ میں، آپ نہیں کہہ سکتے کہ افغان گورنمنٹ کے آفیشلز اور پارلیمنٹیریئنز کی اکثریت خواتین کے حقوق کی حمایت کرتی ہے۔

لہذا جب خواتین تعلیم تک رسائی ، صحت کی حٖفاظت تک رسائی کے لیئے لڑ رہی ہیں۔ پولیس فورس میں خواتین، قانون کا نفاذ خواتین کے خلاف تشدد کا خاتمہ، ایک سیاسی طریقہ کار میں ایک حقیقی نمائندگی، انصاف کے نظام سے تحفظ، طلاق کا حق اور ان کے اور ان کے بچوں کی زندگیوں کے فیصلے وغیرہ، یہ کرزئی کے وعدوں کی دھوکہ دھی ہے  اور دوسروں کی جو کہ 2001 کے فورا۔ بعد کے سالوں میں کیئے گئے،کمٹمنٹس جو کہ ملک نے کی تھیں جب افغانستان نے کنونشن پر دستخط کیئے تھے خواتین کے خلاف تمام اقسام وغیرہ کے خاتمے کے لیئے۔


ایف اے: آپ کے خیال میں آنے والے واقعات ( صدارتی انتخابات اور عالمی فوجوں کا اخراج) کیسے افغانستان میں انسانی حقوق کے ایشوز پر اثر کرے گا؟

 

ایچ بی: جیسا کہ ہیومن رائٹس کے لیئے صورتحال مشکل ہے جس میں خواتین کے حقوق بھی شامل ہیں، یہ حاصل کرنا بہت مشکل ہے، میں ڈرتی ہوں۔ انسانی حقوق کی ترقی جو کہ 2001 کے بعد افغانستان میں ہویئ بہادر مر د و خواتین کی وجہ سے ہویئ جو کہ لڑے اور انہوں نے اپنے حقوق مانگے۔ ہر لڑکی جسے سکول جانا پڑتا ہے، ہر خاتون جسے کام پر جانا پڑتا ہے، اور ہر باپ، بھائی یا کہ شوہر جو کہ اس کی مدد کرتاہے اس تبدیلی کا حصہ ہے جو کہ واقع ہو چکی ہے۔ لیکن عالمی کمیونٹی کی شمولیت نے ان تمام لوگوں کے لیئے جگہ تخلیق کی کہ یہ کوئی کام کریں۔ عالمی رقم سکولوں کلینکس ہسپتالوں، شیلٹرز، قانونی خدمت، نوکریوں قانونی تنظیموں کے لیئے ادا کی گئی۔ اور اہمیت کے طور پر، افغان حکومت پر عالمی دبائو نے حکومت کو اس کام پر مجبور کیا کہ وہ خواتین کے حقوق اور دوسرے انسانی حقوق کے لیئے مدد فراہم کرے۔ لیکن عالمی کمیونٹی تیزی سے مڑ رہی ہے۔ یہ بات صاف ہے کہ زیادہ ممالک جانے کے لیئے انتظار نہیں کر سکتے اور افغانستان کے متعلق مذید نہیں سوچنا چاہتے۔ اس کا مطلب ہوگا کہ پیسہ اور سیاسی دبائو تیزی سے کم ہو رہا ہےاور ہم پہلے ہی بہت سی مثالیں دیکھ چکے ہیں کہ خواتین کے حقوق کے مخالفین

ایف اے: آپ کیا سوچتی ہیں کہ تعلیم، اور سماجی/ڈیجیٹل میڈیا ڈیجیٹل خواندگی کو بہتر بنا سکتا ہے افغان خواتین کے بیچ اور افغانستان میں خواتین کی خود مختاری کی مدد کر سکتا ہے؟

 

ایچ بی: تعلیم یقیناَ افغان خواتین اور لڑکیوں کی خود مختاری کے لیئے ضروری ہے۔ خواتین اور لڑکیاں جو کہ پڑھ سکتی ہیں ان کے خاندانوں میں ان کی زیادہ قدر ہوگی، زیادہ بیداری ہوگی ان کے حقوق کے متعلق، بہتر طریقے سے اس قابل ہونگی کہ معاشی طور پر اپنے خاندان کی مدد کر سکیں یا اپنی ذات کی مدد کر سکیں۔ بد سلوکی سے بچ سکیں۔ اور زیادہ اس قابل ہوسکیں کہ اگر انہیں بد سلوکی کا سامنا کرنا پڑ ے تو مدد حاصل کر سکیں۔ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم مجموعی طور پر افغانستان کی معاشی ترقی کے لیئے ضروری ہے۔ اگر خواتین اور لڑکیوں کے پاس تعلیم نہیں تو ملک ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی غربت سے خود کو نکال سکتا ہے۔ یہ ایک سبق ہے جو کہ سیکھا جاتا ہے بار بار پوری دنیا میں۔

 

ڈیجیٹل خواندگی بھی بہت ضروری ہے۔ انٹر نیٹ نے افغانستان کی سوسائٹی کو بہت سے طریقوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ انٹر نیٹ کے ذریعے، افغانی، خاص طور سے نوجوان افغانی، باقی دنیا میں پہلے سے زیادہ نمایاں ہوئے۔ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ دوسری ثقافتوں میں کیسے زندگی ہے، گلوبل پولیٹیکل ڈویلپمنٹ کو فالو کر سکتے ہیں اور جو افغانستان کو متاثر کرتا ہےاس پر غوروفکر کرسکتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے حصوں کے لوگوں سے دوستی کر سکتے ہیں۔خیالات کاتبادلہ کرسکتے ہیں، اورایک بہتر طریقےسے سوچ سکتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کے لیئے کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیا نہیں کرنا چاہتے لیکن ثقافتی اور معاشی حالات کا مطلب ہے کہ نوجوانوں مردوں کو نوجوان عورتوں کے مقابلے میں انٹر نیٹ تک زیادہ رسائی حاصل ہے، اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں تاکہ افغانی خواتین اور لڑکیاں فائدہ دے سکیں ان کے لیئے دنیا لا کر انٹر نیٹ کے ذریعے۔

فرشتہ فروغ

میرے اور وومنز انیکس کے بلگز کو سبسکرائیب کریں تا کہ آپ کو میرے مزید بلاگز مل سکیں



About the author

syedahmad

My name is Sayed Ahmad.I am a free Lancer. I have worked in different fields like {administration,Finance,Accounts,Procurement,Marketing,And HR}.It was my wish to do some thing for women education and women empowerment .Now i am a part of a good team which is working hard for this purpose..

Subscribe 0
160