دور حاضر کی سائنسی ترقی (حصہ دوم )

Posted on at


قدیم دور میں زندگی تلخ اور دشوار تھی۔ انسان مر مر کے جیتا تھا۔ آج آگ ، ہوا اور پانی اس کے ماتحت ہیں۔ بجلی جیسی خطرناک قوت ہمارے تابع ہیں۔ ہم اس سے زندگی میں ہر کام لیتے ہیں۔ یہ ہمیں گرمی  بھی مہیا کرتی ہے، ٹھنڈک بھی دیتی ہے، اس سے پوری مشینی دنیا میں حرکت ہے ، اس سے گھریلوں دنیا میں آسائش اور آرام ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایک جن ہے جسے انسان نے قید کر رکھا ہے اور جو کام اس سے چاہتا ہے لیتا ہے ، کمپیوٹر  کی ایجاد اور اس کی "فیوض و برکات" پر جس قدر غور کریں ، حیرت اور شکر دونوں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں انسان کے دل میں حیرت پیدا ہو گی وہیں عطا کرنے والے کے لیے شکر کے جذبات بھی ابھریں گے۔ اسی سائنسی ترقی کی بدولت ہماری زندگی سکون اور راحت کا گہوارہ بنی ہوئی ہے ۔ زندگی پہلے ہی خوبصورت تھی سائنسی ترقی نے اس کو حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔


سائنس نے طبی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے ۔ ایکس ریز، الٹرا ساؤنڈ اور کمپیوٹر نے بیماریوں کی تشخیص سے لےکر ان کے علاج تک کے سبھی مراحل کے آسان کر کے رکھ دیا ہے ۔ انسانی جسم کے اندر کی ہر ایک شے واضع ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ سرجری میں حیرت انگیز تجربات ہو رہے ہیں ، انسانی اعضاء کی پیوند کاری ہو رہی ہے ، خون کی کمی خون سے پوری ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ دل بدل دئیے جاتے ہیں ،۔ ایک کے سینے میں دوسرے کا دل جوڑ دیا جاتا ہے۔ گو موت سے بچانا انسانی بس میں نہیں پھر بھی موت اور مسیحا کے درمیان ایک جنگ جاری ہیں۔ بہر کیف انسان بنیادی طور پر بے بس ہیں اور اس کی بے بسی کسی نہ کسی مقام پر اپنا اعتراف کر ہی لیتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ انسان سائنسی ترقی کو انسان کی فلاح و بہبود کے لیے اور بہتری کے لیے استعمال کر رہا ہے ، آنکھوں کے عطیات ، نا بینا لوگوں کو عطا ہو رہے ہیں اور ان کی تاریک دنیا نورانی بنتی چلی جا رہی ہے، اسلام کا تقاضا بھی یہی ہے  اور فطرت کا مقصود بھی یہی۔


 مختصر یہ ہے کہ اگر ایک طرف سائنسی انکشافات کی برکات بے اندازہ ہیں تو دوسی طرف اس کی حلاکت آفرینیا ں بھی  اس قدر ذیادہ ہیں کہ ان کو محسوس کر کے دل کانپتا ہے۔ اس سائنسی ترقی نے ایٹم بم، ہائیڈروجن بم اور نا معلوم کس کس قسم کے تباہ کن ہتھیار بنا دیے ہیں کہ وہ لمحوں میں ہستی بستی دنیا کو موت کی تاریک وادیوں میں دھکیل سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان درددل کی دولت سے مالا مال رہے۔ ستاروں کی گزر گاہوںمیں سفر بھی کرے مگر دلوں کی دنیا میں بھی جھانکے ۔  سورج کی شعاؤں کو گرفتار بھی کرے مگر اپنی تاریک دنیا کونظر انداز بھی نہ کرے ۔


ضرورت محبت اور اخوت کی اس پاکیزہ فضا کی ہے کہ کسی دور افتادہ انسان کے پاؤں میں کانٹا چبھے تو دوسرا انسان اس کانٹے کی خلش اپنے دل میں محسوس کرے اور یہی واحد مقصد ہے علم و حکمت کے ان خزانوں کا جو اللہ تعالیٰ نے آدم کی فطرت میں رکھے ہوئے ہیں۔


"یہی ہے عبادت ،یہی دین و ایماں


کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں"  



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160