عید میلادالنبیﷺ

Posted on at


زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ انسانوں کی طبع، ان کے افکار اور ان کے نقطہ ہائے نگاہ بھی زمانے کے ساتھ ہی بدلتے رہتے ہیں اور ان سے استفادہ کے طریق بھی بدلتے رہتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنے مقدس دنوں کے مراسم پر غور کریں اور جو تبدیلیاں افکار کے تغیرات سے ہونی لازم ہیں ان کو مد نظر رکھیں۔


 


اب سوال یہ ہے کہ اس طریق پر عمل کرنے کے لیے کیا کیا جائے پچاس سال سے شور برپا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ لیکن جہاں تک میں نے غور کیا ہے تعلیم سے زیادہ اس قوم کی تربیت ضروری ہے اور ملی اعتبار سے یہ تربیت علماء کے ہاتھ میں ہے۔ اسلام ایک خالص تعلیمی تحریک ہے۔ صدرالسلام میں اسکول نہ تھے، کالج نہ تھے، یونیورسٹیاں نہ ےھیں۔ لیکن تعلیم و تربیت اس کی ہر چیز میں ہے۔ خطبہ جمعہ عید، حج، وعظ غرض تعلیم و تربیت عوام کے بے شمار مواقع اسلام نے بہم پہنچائے ہیں۔ لیکن افسوس کہ علماء کی تعلیم کا کوئی صحیح نظام قائم نہ رہا اور اگر کوئی رہا بھی تو اس کا طریق عمل ایسا رہا کہ دین کی حقیقی روح نکل گئی۔ جھگڑے پیدا ہو گئے اور علماء کے درمیان جنہیں پیغمبر کی جا نشینی کا فرض ادا کرنا تھا، سر پھٹول ہونے لگی۔ مصر، عرب، ایران، افغانستان ابھی تہذیب و تمدن میں ہم سے پیچھے ہیں۔ لیکن وہاں علماء ایک دوسرے کا سر نہیں پھوڑتے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک نے اخلاق کے اس معیار اعلیٰ کو پا لیا ہے جس کی تکمیل کے لیے حضورؐ مبعوث ہوئے تھے اور ہم ابھی اس معیار سے بہت دور ہیں۔


 


دنیا میں نبوت کا سب سے بڑا کام تکمیل اخلاق ہے، چنانچہ حضورؐ نے فرمایا۔ ‘‘میں  نہایت اعلیٰ اخلاق کےاہتمام کے لیے بھیجا گیا ہوں’’۔ اس لیے علماء کا فرض ہے کہ وہ رسولؐ اللہ کے اخلاق ہمارے سامنے پیش کیا کریں تاکہ ہماری زندگی حضورؐ کے اسوہ حسنہ کی تقلید سے خوشگوار ہو جائے۔ حضرت بایزید بسطامیؒ کے سامنے خربوزہ لایا گیا تو آپ نے کھانے سے انکار کر دیا  اور کہا کہ مجھے معلوم نہیں رسولؐ اللہ نے اس کو کس طرح کھایا۔ افسوس کہ ہم میں بعض چھوٹی چھوٹی باتیں بھی موجود نہیں ہیں جن سے ہماری زندگی خوشگوار ہو اور ہم اخلاق کی فضا میں زندگی بسر کر کے ایک دوسرے کے لیے باعث رحمت ہو جائیں۔ اگلے زمانے کے مسلمانوں میں اتباع سنت سے ایک اخلاقی ذوق پیدا ہو جاتا تھا۔ اور ہر چیز کے متعلق خود ہی اندازہ کر لیا کرتے تھے کہ رسولؐ اللہ کا رویہ اس چیز کے متعلق کیا ہو گا۔


 


گویا ان بزرگوں میں تقلید رسولؐ اور اتباع سنت سے ایک خاص اخلاقی ذوق پیدا ہو گیا تھا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں۔ علماء کو چاہیے کہ ان کو ہمارے سامنے پیش کریں۔ قرآن و حدیث کے عوامض بنانا بھی ضروری ہے لیکن عوام کے دماغ میں ان مطالب عالیہ کے متحمل نہیں۔ انہیں فی الحال صرف اخلاقی نبویؐ کی تعلیم دینی چاہیے۔ 




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160