جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

Posted on at


دین کی تعریف جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہٰ وسلم نے  ہمارے سامنے رکھی ہے  وہ یہ ہے کہ دین احکام خداوندی کی عظمت اور خلق خدا پر شفقت کا نام ہے۔ دین سراپا خیر خواہی ہے ، سراپا نصیحت ہے ، اس خیر خواہی اور نصیحت کا تعلق عبادات سے کہیں ذیادہ معاملات سے ہے ، تسبیع و مصلی سے کہیں ذیادہ زندگی کے روز و شب سے ہے، انفرادیت سے کہیں ذیادہ اجتماعیت سے ہے۔ یہ خیر خواہی انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر گھریلو زندگی تک، دفتری امور سے لے کر کاروباری معاملات تک اور مقامی سیاست سے لے کر ملکی سیاست تک، یہاں تک کہ بین الاقوامی سیاست تک وسیع ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جانےکا مفہوم بھی یہی ہے کہ انسان اپنے ہر معاملے کو اللہ کے رسول ﷺ کے ماتحت کر لے۔ اپنی ہر آرزو کو منشائے رسالت ﷺ کے مطابق بنا لینے کا نام ایمان ہے۔


یہ کہنا کہ اسلام صرف عبادات کا نام ہے ، بقول شاعر


لڑتے ہیں اختلاف عقائد پہ لوگ


یہ تو ہے اک معاملہ دل کا خدا کے ساتھ


اسلام دل کے اس معاملے کو بھی پاکیزہ بناتا ہے ، عقیدے کی درستی بھی کرتا ہے، بندے کو اللہ سے ملاتا بھی ہے مگر بندے کو بندے سے بھی ملاتا ہے۔ معاشرت ہو یا سیاست، حکومت ہو یا محکومیت، ہر مقام پر حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے۔ آداب بتاتا اور اخلاق سکھاتا ہے۔ یہ بات کہ انسان سیاست میں حصہ نہ لے کہ یہ ایک گندہ کھیل ہے، دین خیر ہے، یہ شر ہے، درست نظریہ نہیں ہے۔ اسلام کا اول کام ہی شر کو خیر بنانا ہے، ظالموں کو قلمہ حق سکھانا ہے ، برائی کو طاقت سے رو کنا ہے اور کائنات کے ایک ایک رخ کو صراط مستقیم  دکھانا ہے ۔اسلام، قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی  دنیاوی زندگی کو ہر اعتبار سے خوبصورت بنانے کی تلقین کرتا ہے ۔ جب یہ زندگی سراپا سعادت بن جائے گی تو اخروی زندگی خود بخود سنور جائے گی۔


ہمارے سامنے بہترین نمونہ حضور ﷺ کا ہے۔ حضورﷺ کی زندگی غار حرا کی تنہائی بھی ہے اور اور منبرو محراب کی مجلس آرائی بھی، رات رات بھر کی عبادت گزاری بھی ہے اور میدان جنگ کی شہسواری بھی، اس میں تبلیغ و تلقین کے انداز بھی ہیں اور  فرما نروائی کے آداب بھی۔ جب عبادت، سیاست اور معاشرت کے سبھی رخ حضور ﷺ کی سیرت پاک میں موجود ہیں اور جب آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے تو ہم زندگی سے کیسے سیاست کو ختم کر سکتے ہیں اور کیسے عبادات کو اپنا کر ، روز و شب کو راہبیت بنا سکتے ہیں۔


ہماری زندگی کسی نہ کسی رنگ سے رزم و بزم میں بٹی ہوئی ہے ۔ گو شہ گیری اور عبادات صرف امن کی طلب گا ر ہیں جبکہ زندگی میں دشمن سے مقابلہ بھی ہے اور اپنوں سے محبت بھی اور اسلام نے واضع سبق دیا ہے کہ میدان جنگ میں مومن فولاد سے کہیں ذیادہ سخت ہے جبکہ حالت امن میں ریشم سے کہیں ذیادہ نرم ہے ۔ اب جب زندگی کے دونوں پہلوؤں کے بارے میں واضع ہدایات موجود ہیں ، حضور ﷺ کے کردار کے حسیں نکوش بھی محفوظ ہیں  تو تخت و تاج، فرمانر وائی و سلطانی اور جنگ و جدال کو دین سے کیسے بے تعلق قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو حکومت عطا کرے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اس اصولوں کو سامنے رکھے جو قرآن پاک نے ہمارے لیے  پیش کیے ہیں چونکہ یہ اصول ہر اعتبار سے مکمل ہیں اس لیے ان پر عمل کر کے ہی سیاست اور سیادت خیرو برکت کا سر چشمہ بن سکتی ہے۔ اگر یہ زریں اصول سامنے  نہیں ہو ں گے تو امور سلطنت اور امور زندگی میں اعتدال قائم نہیں رہ سکے گا اور جب زندگی افراط اور تفریق کا شکار ہو گی تو اس کا حسن دھندلا جائے گا  اور رحمت کی جگہ ظلم و ستم لے لیں گے، اسی کو اقبال "چنگیزیت " کہتا ہے۔


"جلال پادشاہی ہو کہ           جمہوری تماشا ہو


          " جدا    ہو     دیں     سیاست            سے تو      رہ   جاتی ہے    چنگیزی  "


                



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160