انسانی حقوق

Posted on at


جب ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ،اس کے بوہت ہے سادہ اورعام فہیم معنی ہیں ،جن کا تعلق انسان سے ہے اور اساں ان حقوق کا حقدار اس لئے ہے کہ وو ایک انسان ہے ،خوا جیسا بھی ہو کہیں کا بھی رہنے والا ہو وو ان حقوق کا حقدار ہے .اور ان حقوق کا مقصد انسان کی عظمت اور برابری ہے ، 

جب انسانیت کا ذکر ہو تو محسن انسانیت کا ذکر نہ کرنا جو پوری کائنات کے انسانوں کے لئے رحمت تھے ،انصاف نہ ہوگا یہاں پر میں صرف آپ (صلی الله علیہ و آلہ وسلّم)اکے آخری خطبہ سے چند فرمودات عرض کرنا چاہونگا ،آج ہم ان کے نام پر انسانیت کی اتنی تفہیک کرتے ہیں جو کسی بھی طرح سے ان کے فرمودات یا اخلاقیات کے مطابق نہیں ہے

آپ (صلی الله علیہ و آلہ وسلّم)نے فرمایا-لوگو،بیشک تمہارا رب ایک ہے اور عربی کو عجمی پر ،عجمی کو عربی پر،سرخ کو سفید پر ،سفید کو سیاہ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں مگر تقویٰ کے سبب یہی دو الفاظ ہیں ،جو انسان برابری اور عظمت کو یقینی بناتے ہیں،یہ تمام کے تمام الفاظ انسانی حقوق کے سونہری اصول ہیں،

اور خاص کر آخری تقویٰ والے الفاظ آج ہمارے تمام تر مسائل کے حل کے علاوہ ترقی اور مدارج کا فارمولا ہیں ،آج ہم ان اصولوں کو بھول کر رسوا ہو رہے ہیں اور غضب کی بات تو یہ ہے کہ نام نہاد پڑھے لکھے ہی ہمیں لوٹ رہے ہیں،تو بات ہو رہی تھی انسانی حقوق کی ،ان کا بنیادی فلسفہ یہی ہے ،کہ ان کا محور انسانیت ہی ہے ،ہم انسان ہونے کے ناتے ان کا دعوا رکھتے ہیں ،اور ہمیں کسی سے ان حقوق کی یقین دہانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے،

یوں تو انسانی حقوق کی تاریخ انسان کی تاریخ کے برابر ہے،مگر مختصر دوسرے جنگ آزادی کے بعد قوموں نے امن قائم رکھنے کے لئے کوئی حل نکلنے کے لئے ایک ادارو اقوام متحدہ قائم کیا -جس کا مقصد امن تھا .اس ادارے نے کو تمام ممبر ریاستوں کی رضا مندی سے ایک دستوایزی حقوق کا بل ترتیب دے کر تمام انسانی حقوق کو یقین بنانے کا عہد کیا -اس انسانی حقوق کی دستاویز کو یونیورسل ڈیکلریشن اف ہمن را تس کہتے ہیں-اب اقوام متحدہ کا تمام رکن ممالک ان حقوق کی عزت اور رکھوالی اور پاسداری کے پابند ہیں،

اس میں تین قسم کے بنیادی حقوق کا ذکر ہے،جن میں شخصی آزادی،مساوات اور تحفظات وغیرہ ہیں -ہمارے ملکی آئین کا دوسرا باب ٨سے ٦٨تک ان ننیدے حقوق کی ضمانت دیتا ہے،١اصول -کسی کو بھی ان حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکنا ،جس کا تعلق بہیسیت انسان ہونے سے ہے .-٢-یہ ایک دوسرے سے جڑے ہووے ہیں،انکو ایک دوسرے سے علحیدہ نہیں کیا جا سکتا -٣-تیسرا یہ کہ یہ تمام انسان کانہیں بھی رہنے والی ہوں ،ایک جیسے ہے اپلائی ہوتے ہیں،

ان حقوق کو سمجھنے کے لئے درجوں یا مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے،پہلے نمبر پر تہذیب اور سیاسی قوانین کا ذکر ہے،جن میں آزادی رائے .مذہبی آزادی اور قانون کے نزدیق برابری کے حقوق اتے ہیں،پھر دوسرے مرحلے میں سماجی محاشی جن میں تعلیم اور روزگار کا ذکر اتا ہے ،اور تیسرے مرحلے میں اجتماہی جن میں امن غربت مصولیات وغیرہ کے اتے ہیں،

١٠ دسمبر کو عالمی سطح پر ان حقوق کا دیں منایا جاتا ہے،اور مختلف قسم کے پروگرام ترتیب دے جاتے ہیں،جن میں ان قوانین کا پر چار اور عمل کو یقینی بنانے کے لئے مذاکرات اور کوشش کی جاتی ہے،ان قوانین کو مرضے وجود میں آیئے ہووے عرصہ دراز ہو گیا ہے،مگر آج بھی اکثریت اس سے بے خبر ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کم از کم ہر انسان اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کا علم رکھتا ہو -تب جا کر ہی وو اپنا حق کا دعوا کر سکتا ہے،اور امن کی کوششیں بھی کامیاب ہو سکتی ہیں،



About the author

abid-khan

I am Abid Khan. I am currently studying at 11th Grade and I love to make short movies and write blogs. Subscribe me to see more from me.

Subscribe 0
160