میری زندگی میں ایک خوفناک حادثہ

Posted on at


کہتے ہیں کہ حادثات زندگی کا حصّہ ہوتے ہیں۔ شاید ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ کیونکہ ہر چھوٹا نقصان انسان کو بڑے نقصان سے بچاتا ہے۔ یہاں میں جو لکھ رہا ہوں یہ میری زندگی کا حقیقی واقعہ ہے۔



یہ 8 محرم الحرام کا دن تھا۔ میں اپنی پرانی عادت کیطرح صبح کچھ زیادہ ہی دیر سے اٹھا۔ کیونکہ یونیورسٹی بند تھی۔ اور کوئی کام بھی نہیں تھا۔ اُٹھنے کے بعد ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر میں اور میرا دوست وقاص خان گھر جانے کا پروگرام بنانے لگے۔ ہم نے ملتان سے واپس رحیم یار خان جانا تھا۔ لیکن نا جانے کیوں میرا دل گھر جانے کو نہیں کر رہا تھا۔ اور میں چاہ رہا تھا۔ کہ آج کے بجائے کل نکلا جائے۔ لیکن دوست کے بار بار اصرار اور ضد کرنے پر مجھے بھی تیاری کرنا پڑی۔ اور ہم ہاسٹل سے مغرب کے ٹائم نکلے اور رکشہ کروا کر فیصل موورز ٹرمینل پہنچے۔ جہاں محرم الحرام کیوجہ سے کافی زیادہ رش تھا۔ اور ہمیں بھی کوئی سیٹ نہیں ملی۔ سوائے 9 بجے رات کے ہم نے اُسی گاڑی پر جانے کا فیصلہ کیا۔ اور فرنٹ کی دو ٹکٹیں لینے کے بعد ہم گاڑی کا انتظار کرنے لگے۔ چونکہ ہمیں دو گھنٹے انتظار کرنا تھا۔ اس لیے ہم آپس باتیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔ کافی دیر باتیں کرنے کے بعد میں تھوڑی دیر کیلئے وہاں سے باہر نکل آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر واپس جا کر اپنے دوست کے ساتھ بیٹھ گیا۔



آخر وقت کہاں رُکتا ہے۔ 9 بجے اور ہم گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ میں ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا اور میرا دوست میرے ساتھ والی سیٹ پر۔ ملتان سے بہاولپور کا سفر ہم نے آپس میں خوش گپیوں میں گزارا۔ دو گھنٹے بعد ہم بہاولپور پہنچ گئے۔



وہاں گاڑی کا دس منٹ کا سٹاپ تھا۔ اس لیے ہم گاڑی سے اُتر کر پانی وغیرہ پینے چلے گئے۔ جب گاڑی جانے کا وقت آیا تو ہم واپس گاڑی میں بیٹھ گئے۔ لیکن یہاں پر ہم نے تھوڑی تبدیلی کی مطلب میرا دوست میری جگہ اورمیں اس کی سیٹ پر بیٹھا۔ یہ میں نے اپنی مرضی سے کیا۔ ایک طرح سے یہ میرے لئے تو مفید ثابت ہوا لیکن اس بات کا افسوس بھی مجھے بہت زیادہ ہے اور شاید ہمیشہ رھے گا ہوا یوں کہ بہاولپور سے نکلنے کے کچھ دیر بعد میری تو آنکھ لگ گئی۔ اور مجھے پتہ نہیں کہ کون سا سٹاپ آیا اور گیا۔ پھر کافی دیر بعد جب ہم رحیم یارخاں پہنچنے ہی والے تھے۔ تب میری آنکھ کھل گئی اور میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا لیکن تقدیر نے ہماری قسمت کا فیصلہ کیا کیا ہوتا ہے یہ ہم میں سے کون جانے۔ ایک موڑ مڑتے ہوئے ڈرائیور کو رات کے اندھیرے کی وجہ سے شاید ٹھیک نظر نہ آنے پر گاڑی اپنی پوری رفتار سے سڑک پر کھڑی ٹرالی میں دے ماری۔ گاڑی لگنے سے کچھ سیکنڈ پہلے میں نے کلمہ دھرایا اور آنکھیں بند کرلیں۔ تب مجھے پتہ چلا کہ موت کو آنکھوں سے دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ اس خوفناک حادثے میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا۔ لیکن میری سیٹ پر بیٹھے ہوئے میرے دوسے وقاص کو بہت زیادہ چوٹیں آئیں اور ان کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں تب کا واقعہ  اور حالات اور اپنے دوست کے منہ سے نکلنے والی آہیں میں زندگی بھر چاہتے ہوئے بھی نہیں بھول سکتا۔


میری دُعا ہے اللہ رب العزت انہیں جلد از جلد صحت یاب کر کے واپس ہمارے درمیان لے آئے۔ ( آمین


اور اللہ سب بیماروں کو صحت یابی عطا فرمائیں۔ اور ایسے حادثات سے محفوظ فرمائیں۔ ( آمین




About the author

usman-ali

My self usman ali and interested in politics and every kind of talk shows also search about famous peoples and now i am doing BS honor in electrical.

Subscribe 0
160