دوستی

Posted on at


انسان جب پیدا ہوتا ہے۔ مطلب اس دنیا جہاں فانی میں اپنی آنکھ کھولتا ہے پھر اس معاشرے میں پرورش پاتا ہے۔ اور جب وہ شعور حاصل کر لیتا ہے۔ اس معاشرے کے رواج اور ان میں بسنے والے رشتوں کو سمجھنے لگتا ہے تو اُسے کچھ رشتے ایسے ملتے ہیں۔ جو بنے بنائے ہوتے ہیں۔ جیسے کے ماں، باپ، بہن، بھائی وغیرہ۔ جنہیں ہم زبردستی رشتوں کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ انسان خود نہیں بناتا بلکہ اُسے بنے بنائے ملتے ہیں۔

اُس کے بعد جب وہ کچھ بڑا ہوتا ہے۔ اپنی نوجوانی یا بچپن میں ہی وہ خود اپنے لیے کچھ رشتے بناتا ہے۔ جسے ہم دوستی کا نام دیتا ہیں یہ رشتے انسان خود چنتا ہے وہ اپنے لیے کچھ دوست بناتا ہے۔ جو کہ اس کے دُکھ، درد کے ہم سفر ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت اچھا احساس ہوتا ہے۔ لیکن دوستی کا رشتہ صرف اُنہی سے ہوتا ہے جو مشکل وقت میں ساتھ دے۔ اگر کوئی انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ اُس کے دوست سب سے زیادہ ہوں، یا ہیں تو حقیقی معنوں میں اس کا دوست کوئی نہیں ہوتا۔

دوستی کا احساس تو ایسا ہوتا ہے کہ اگر آپ پریشان ہیں۔ آپ کا کوئی درد، دُکھ ہے تو اُس سے آپ کا دوست بھی پریشان ہو جائے۔ جسم تو دو ہوں لیکن جان ایک ہی ہو۔

دوستی کا رشتہ ایک پورے جسم کی طرح ہوتا ہے کہ اگر جسم کے کسی حصے میں کوئی تکلیف ہو تو پھر سارا جسم اُسے محسوس کرتا ہے اور بے چین رہتا ہے۔ جب تک وہ حصّہ بھی اُس درد سے آزادی نہ حاصل کرلے۔

اُس کے علاوہ دوستی میں ہم ایک دوسرے سے اپنے دُکھ، درد بانٹ سکتے ہیں اگر آپ کو کوئی پریشانی ہو اور وہ اپنے گھر والوں کو بھی نہ بتا سکے۔ تو پھر ایسے موقعہ پر دوستی اور دوست ہی کام آتے ہیں۔

ایسے موقعہ پر ایک مصرعہ کہا جاتا ہے کہ

سچا دوست ایک گھنے درخت کی طرح ہوتا ہے۔ وہ چاہے پھل دے نہ دے لکین سایہ ضرور دے گا اور ہمیشہ دیتا رہے گا۔

اور آخر میں بس یہی کہوں گا کہ اپنے سچے دوست کو کبھی نہ آزماؤ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی مجبوری کے تحت تمہاری اُس آزمائش میں پورا نہ اُتر سکے اور تم ایک سچے دوست کو کھو بیٹھو۔



160