یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جہاں عورت کا مقام اس کا گھر ہے وہاں خدا تبارک تعالیٰ نے اس مخلوق کے لیے کچھ آسانیاں بھی رکھ چھوڑی ہیں اور وہ یہ کہ قوائد اور حدود کو ملحوظ رکھ عورتیں کچھ حاجات کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے لیکن چراغ محفل کی حیثیت سے نہیں۔
حضورﷺ نے فرمایا اللہ نے تم کو اپنی ضرورت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے اس سے معلوم ہوا کہ حکم قرآنی کا منشایہ نہیں ہے کہ عورتیں گھر کی حدود سے قدم باہر نکالیں ہی نہیں مگر یہ اجازت نہ غیر مشروت ہے نہ غیر محدود۔ عورتیں اس کی مجاز نہیں ہیں کہ آزادی کہ ساتھ جہاں چاہیں پھریں اور مردانہ اجتماعات میں گھل مل جائیں۔ جیسا کہ آج کل بعض لوگ عورت کی بے انصافی کی تلافی کرنے چلے مگر ساتھ ہی غلط کے مرتکب بھی ہو بیٹھے۔ ان کے دماغوں پر مادیت کا غلبہ ہے اس لیے انہوں نے عورت کو معاشی و تمدنی غلامی سے نجات دلانے کے معنی یہ سمجھے کہ اس کو بھی مرد کی طرح خاندان کا کمانے والا فرد بنا دیا جائے۔ مادیت کے نقطہ نظر سے سے اس طریقہ میں بڑی جاذبیت تھی۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی کرتی چلوں کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو یہ حکم بھی دیا کہ گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھی رہو اور زمانہ جاہلیت کے نئے بناوٗ سنگھار نہ کرتی پھرو۔
اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے کسی تاریخ بیان کی حاجت نہیں۔ جاہلیت اولیٰ میں عررتیں خوب بن سنور کر نکلتی تھیں جس طرح دور جدید کی جاہلیت میں نکل رہی ہیں۔ اسلام اس سے منع کرتا ہے وہ کہتا ہے اول تو تمہاری صحیح جاےٗ قیام تمہارا گھر ہے بیرون خانہ کی ذمہ داریوں سے تہں اس لیے سبکدوش کیا گیا کہ تم سکون و قار کے ساتھ اپنے گھروں میں رہو تاہم اگر ضرورت پیش آئے تو گھر سے باہر نکلنا بھی تمھارے لئے جائز ہے لیکن نکلتے وقت پوری عصمت مابی ملحوظ خاطر رکھو۔
اب ہم اس عالمگیر مذہب یعنی اسلام کی طرف آتے ہیں جس نے عورت کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیا ہے اور دنیا پر واضح کر دیا کہ عورت کوئی چیز نہیں بلکہ عورت کا مقام رسول کریمﷺ کی اس حدیث سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
‘‘ماں کے قدموں تلے جنت ہے’’۔
اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دیگر مذہبوں کے برعکس اسلام میں عورت کو کیا حیثیت حاصل ہے؟؟؟؟؟ بشرطیکہ وہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھے۔
اسلام خاندان کی تنظیم کرتا ہے۔ اس تنظیم میں عورت کو گھر کی ملکہ بنایا گیا ہے۔ کسب مال کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اس مال سے گھر کا انتظام کرنا اس کا کام ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حکمران ہے اور وہ اپنی حکومت کے دائرہ میں اپنے مل کے لیے جوابدہ ہے۔ اس معاملے میں علامہ اقبال کا قول ہے:
‘‘وجود زن سے ہے کائنات کی تخلیق ’’
ایک اور جگہ علامہ اقبال کا نبی پاک کے بارے میں قول ہے:
مسلماں آں فقیرے کج کلا ہے! اسید از سینہ او سوز آھے’’
دلش نالد۔ چرا نالد؟ نداند نگاہے یا رسول اللہ نگاہے
حضور تو غم یاراں بگویم بامید کہ وقت دل نوازی است
تب و تاب دل از سوز غم تست نوائے من ز تاثیر دم تست
بنالم زانکہ اندر کشور ہند ندیدم بندہ کہ محرم تست‘‘
رائیٹر: عافیہ حرا