کتابیں ہاتھ میں ہیں آگھی کا نام نہیں چراغ ہاتھ میں نابینا آدمی کی طرح (۱)

Posted on at


ہمارے معاشرے میں لڑکے یا لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کے بہترین مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہیں۔اور یہاں تقریباً ہر ماں باپ کا خواب ہوتا ہے کہ ان کا بچہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بنے۔ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی جو عمومی سوچ یہاں پائی جاتی ہے۔وہ ڈاکٹر اور انجینئیر کے روپ میں ہیں بچپن سے ہی ہر بچے کا سپنا ہوتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر اعلیٰ مقام پر پہنچے۔



پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں زیادہ تر پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں۔ حکومتی تعلیمی ادارے جس زبوں حالی کاشکار ہیں ان سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ ایک تعلیمی ادارے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ اعلیٰ ڈگریاں لینے والے طالب علموں کو جنم دے بلکہ یہ ہے کہ ایسا تعلیمی ماحول فراہم کرے کہ جس میں طالب علموں کے کردار کی بھی نشونما ہو اور وہ آگے جا کر معاشرے میں ایک کارآمد انسان بھی بنے۔ جس انسان کے پاس ڈگریوں کا ڈھیر تو ہو لیکن اخلاقیات سے عاری ہو تو ایسا شخص اس معاشرے کی فلاح و بہبود کے کیا کام آۓ گا۔



میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں۔پورا سال ہم اس تگ و دوڑ میں گزار دیتے ہیں کہ اچھے نمبروں سے پاس ہو جائیں۔ یہ الگ موضوع ہے کہ الیٰ نمبروں سے پاس ہونے کے غلط طریقے بھی ہم نے بہت ڈھونڈ نکالے ہیں۔ہم لوگ اپنا مستقبل سنوارنے کی دھن میں مگن ہیں اور یہ احساس قطعی فراموش کر دیتے ہیں کہ ہمیں اچھے اخلاق و کردار کا مجموعہ بننے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنے تعلیم کوخلق خدا کی فلاح کے لیئے استعمال کریں۔ ناکہ یہ حال ہو ہمارا کے ہمارے ذہن علم سے آراستہ ہو کر بھی کسی فائدے کے نہ رہیں۔



 


 



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160