ہاسٹل اور کالج کے درمیان بس کا سفر

Posted on at


سفر کرنا ایک اچھا مشغلہ اور تفریح ہے اگر یہ دلکش اور پر فضا مقام پر ہو لیکن اگر ایسی جگہ جہاں گردو غبار،گرمی،رکشوں کے شور اور گدھا گاڑیوں کے علاوہ کچھ بھی نظر نہ آتا ہو۔جہاں بس کا شیشہ کھولتے ہی گردو غبار اور رکشوں کی آوازیں آپ کے کانوں کے پردے پھاڑ دیتی ہو جہاں گدھوں کی آہ و بکا اور فریاد آپ کے دل ایک طرف غمزدہ تو دوسری طرف ڈرا بھی دیتی ہو۔ اگر ایک طرف گردو غبار کی وجہ سے ہم بیمار پڑ سکتے ہیں تو رکشوں کے شور اور ٹرکس کے ہارن کی وجہ سے کان کے پردے پھٹ سکتے ہیں۔



جہاں بیک وقت ہم کو ۷،۸ ڈاکٹرز سے واسطہ پڑ سکتا ہے جو کہ آج کل کے کمپلیکس ہسپتالوں میں مریض کم اور ڈاکٹرز زیادہ ہوتے ہیں۔


سو ہر صبح ہمیں سویرے اٹھنا پڑتا ہے۔ جلدی جلدی تیار ہونا پڑتا ہے اور دوران تیاری آوازیں لگاتے ہیں چاچا بس تو نہیں آئی۔ایسے میں جواب اگر نفی میں آجاۓ تو ٹھیک لیکن اگر بس آئی ہو تو تو پھر کوئی ناشتہ کرنا ملتوی کر دیتا ہے تو کوئی بغیر پالش کے جوتے لیئے بس میں چڑھتا ہے اگر کسی کے بال کنگھی سے رہ جاتے ہیں جو بعد میں اسے فیشن کا نام دیتے ہیں تو کوئی شیو کو ادھورا چھوڑ کر نام دیتے ہیں ویسے بھی بس آنے کی خبر ہمیں بس کے ہارن بجنے سے بھی ہو جاتی ہے



لیکن پتہ نہیں کہ ٹرکس کے ڈرائیورز کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ ہمارا ہاسٹل ہےاور وہ بھی ہارن بجا کر ہمارے اوسان خطا کردیتے ہیں لہٰذا ہر ہارن کے بجنے کے ساتھ چاچا سے ہمیں پوچھنا پڑتا ہے اور خود بھی کمرے سے جھانکنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو لڑکے بھی جھوٹ کا نعرہ لگا دیتے ہیں کہ بس آگئی ہے ایسے وقت دل پر کیا گزرتی ہے وہ اللہ ہی بہت جانتا ہے۔ 




About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160