ماں

Posted on at


 

"وہ ہستی جسے خود سے دی خدا نے تشبیہ''

''بے شک تمارا رب ستر ماوں سے زیادہ شفیق ہے''

 

کبھی کبھی بندہ خواہشات سے اکتا جاتا ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر خواہش پوری ہو- لیکن---- لیکن اس خواہش کو، اس تمنا کو اس آرزو کو تو میں خود پروان چڑھا رہا تھا اور جب اس خواہش کے بارے میں سوچتا تو مجھے اسے محسوس ہوتا کے مجھے سکون مل جاتا- پھر تو میں اس تمنا کو اس آرزو کو پورا کرنے کے منصوبے بناتا رہتا- مجھے پتا تھا میرے حالت ایسے ہیں کے میں اپنی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکوں گا- اب تو میری یہ خواہش دن بدن بڑھ رہی ہے کے اس دفع جو بھی ہو میں حج کرنے ضرور جانا ہے-

 

 

جس وقت میں اپنے دوستوں  سے اس کا ذکر کرتا ہوں- تو وہ  کہتے ہیں کہ خوشی کی بات ہے کے تم فریضہ حج ادا کرو- صرف یہی خیال تھا اس کے علاوہ کسی بات کی طرف کوئی توجہ نہ تھی- اگر گھر میں امی، ابو اور باقی گھر والے مجھ سے کوئی بات کرتے تو انھے ٹال دیتا- ہر دفع جب امی کوئی بات کرتی تو تو نہ صرف ان کے کہنے کو ٹالنا بلکے ان کے ساتھ بدتمیزی سی پیش اتا- بہنے مجھے بہت سمجھاتی مگر میں کہا سننے والا تھا- دوست احباب مجھے بہت سمجھتے مگر میں یہ کہ کر جان چھڑا لیتا کہ خود کو تو  سنبھال لو پھر مجھے نصیت کرنا حالانکہ وہ بارے با ادب تھے

سے بھی اکتانے  لگے کے ہر وقت حج ----حج کی رٹ لگائی ہوئی ہے والدین کا کچھ خیال نہیں ہے یوں تم حج کر سکو گے وغیرہ- میں ان کی باتوں پر کان نہ دھرتا –

ایک دن تمام دوست مرے پاس آ گۓ سلام کے بعد وہ ١ دوسرے کو اشارے کرنے لگ گئے- میں نہ سمجھ سکا کہ وہ کیا کرنا چا رہے ہیں- آخر کار موحسن بولا "راحیل آج تمارے لئے ١ سرپرائز ہے- جس کی تمنا تمیں روز بروز بڑھ رہی ہے- تو تمام دوست ١ دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے- لیکن میں حیرت کے مارے کچھ انھین  دیکھ رہا تھا''؟ کیا------ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میں حج بھی کر سکوں  گا- اب تو جلدی سے بتاؤں کے ووہ  کیسے؟ اب پہلیاں مت ڈالو جلدی سے بتاؤں؟

اچھا سنو! ١ حدیث پاک ہے کے حضرت محممد ص نے فرمایا "جو اپنی ماں کو مسکرا کر دیکھتا ہے تو اسے ١ حج کا ثواب ملتا ہے- صحابہ اکرام نے پوچھا یا رسول الله اگر ہم ١٠٠ بار اپنی ماں کو مسکرا کر دیکھیں تو اپ نے  فرمایا "ہاں ١٠٠ بار حج کا ثواب ملے گے" تھوڑا ٹھرنے کے بعد وو مزید بولا کے جنت کہتی ہے کہ میں جنت کہلاتی ہو اور میں تماری ماں کے قدموں تلے ہوں "

 

قران مجید میں ارشاد ہوتا ہے "تماری ماں باپ یا دونوں میں سے ١ بڑھاپے کو پہنچ جائے تو ان کو اف تک نہ بولو بلکے ان کا سہارا بنو"

 

کیا یہ سب سچ ہے میں نے اپنے ماں باپ کہ  ساتھ کتنا برا کیا ہے- یہ سنتے ہی اس کا سر شرمندگی سے نیچے ہو گیا- اور سوچا کے کاش میں اپنی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تو میری حج کرنے کی خواہش پوری ہو جاتی- اور اپنی ماں کے ساتھ اس سلوک سوچ کہ میری آنکہ سے ندامت کے آنسوں نکل گۓ-

 

ہم سب کو اپنی ماں باپ کی قدر کرنی چاہیے کیوں کہ

"ماں باپ ١ ایسا درخت ہیں جو پھل نہ بھی دیں لیکن سایہ ضرور دیتے ہیں"



About the author

hamnakhan

Hamna khan from abbottabad

Subscribe 0
160