ہمارے معاشرے میں عورتوں کے حقوق کا ویسے بھی بہت خیال رکھا جاتا ہے،مرد بیچارہ جتنا ہی اچھا ہو جاۓ مگر عورت کی بات کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے یہی حال پرچہ اور پرچی کا بھی ہے پرچے کو کوئی پسند نہیں کرتا مگر پرچی کو سب پسند کرتے ہیں۔
امتحان کے دنوں میں سب طلبہ و طالبات پرچے سے ڈرتے ہیں لیکن اگر کمرہ امتحان میں پرچے کے دوران اگر کوئی چھوٹی موٹی پرچی مل جاۓ تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور کمرہ امتحان میں اکثر وقت پرچی کی تلاش میں ہی گزرتا ہے جن میں لڑکیاں سرفہرست ہوتی ہیں۔صرف یہی نہیں اگر یہ پرچی ایگزامینر کو پکڑا دی جاۓ جس پر آپ کا نام اور سفارش کرنے والے کا بیان لکھا ہو تو پھر یہی پرچی آپ کو بغیر محنت کے کامیاب کرواسکتی ہے۔
جب لڑکیوں کو کوئی سوال نہ آ رہا ہو تو وہ لڑکوں کو ایسے دیکھتی ہیں جیسے ان سے کچھ چین لیا ہو ۔
سڑک پر گاڑی چلاتے وقت بھی یہی فکر رہتی ہے کہ کہیں ٹریفک پولیس پرچہ نہ پکڑا دے ہر کوئی پرچہ لینے سے ڈرتا ہے ۔تھانے میں اگر آپ کے خلاف پرچہ کاٹ دیا جاۓ تو دل و دماغ میں کھلبلی مچ جاتی ہیں لیکن اگر کسی بڑے افسر کی پرچی آپ کے ساتھ ہو تو آپ کو سکون اور پولیس کو آرام آجاتا ہے۔ہسپتال میں ڈاکٹر کے پرچے سے مریض گھبراتا ہے کہ نہ جانے کیسی دوائی لکھی ہو گی اور کتنی مہنگی ہوگی لیکن اگر ڈاکٹر پرچی لکھ دے اس کے ٹیسٹ مفت کروائیں جاۓ تو مریض بڑی حد تک ٹھیک ہو جاتا ہے۔
”ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا”